پروفیسر اخترالواسع
سی اے اے اور این آر سی کے خوف نے پورے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے پورا ملک غم و غصہ کی حالت میں سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ احتجاج کی یہ آندھی شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک پھیل چکی ہے بلکہ سی اے اے خلاف اب گاؤں گاؤں میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ احتجاج کی عمومیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بولی جانے والی سبھی زبانوں میں احتجاجی نعرے، نغمے اور سلوگن سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہوگئے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت سواداعظم کے جذبات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ کل ہی جودھپورمیں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ دوسری طرف حکومتی مشینری، آرایس ایس سے وابستہ تنظیمیں اور خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے افراد گھوم گھوم کر سی اے اے کے جواز کی دلیلیں پیش کر رہے ہیں اور عوامی احتجاج اور مظاہروں کے مقابلے اور حکومت کی حمایت میں ریلیاں بھی نکال رہے ہیں۔ سی اے اے کالعدم ہوگا یا نہیں اس سے قطع نظر احتجاجی مظاہرو ںمیں شا مل ہونے والوں کے خلاف پولیس ایکشن نے پورے ملک میں ایک نئے قسم کی سراسیمگی پھیلادی ہے اور خوف کی ایک نئی عبارت لکھی جارہی ہے۔
دہلی سمیت ہندوستان بھر میں ہزاروں افراد کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے اور لاکھوں افراد پولیس کے نشانے پر ہیں جنہیں کسی وقت بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ دہلی، میرٹھ، مظفرنگر، سہارنپور، بجنور، کانپور، لکھنو¿، پٹنہ ،کالی کٹ، ممبئی اورشمال مشرقی ریاستوں سمیت ملک کے سیکڑوں مقامات پر پولیس نے نامعلوم ایف آئی آر درج کر رکھی ہیں اور اپنے مخبروں کے ذریعے یہ خبرپھیلا رہی ہے کہ کسی کوبھی نقض امن کے جرم میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ مظفرنگر میں پولیس کی ظالمانہ کارروائی کی کچھ تصویریں سامنے آئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح پولیس نے لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑکی ہے اور لوگوں کے کاروبار کو تہس نہس کیا ہے۔ پولیس اب لوگوں کی گرفتاری کی مہم چلا رہی ہے، ہزاروں نوجوانوں اور کم سن بچوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بہت سوں کے خلاف وارنٹ جاری کیے گئے ہیں، ایک نوجوان کو توعین اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اپنے والد کو ایمبولینس میں لے کر اسپتال جا رہا تھا۔ پولیس اندھا دھند گرفتاری پر آمادہ ہے،مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کئی شہروں میں پولیس نے امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کے الزام میں ایسے لوگوں کو بھی نوٹس بھیج دیا ہے جو یا تو برسہا برس سے شہرمیں رہتے ہی نہیں یا ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس ایکشن کس رخ پر جا رہا ہے۔
دوسری طرف یہ خبربھی چھن چھن کر آرہی ہے کہ مغربی اترپردیش میں سی اے اے کے خلاف احتجاجی جلوس اور توڑپھوڑ کی ذمہ داری ایس ڈی پی آئی پر ڈالی جا رہی ہے اور پولیس نے پاپولر فرنٹ پی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پولیس اندھیرے میں تیر چلا رہی ہے اور وہ نامعلوم ایف آئی آرکی بنیاد پر گرفتاریوں سے جیل بھرنا چاہتی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت احتجاج کی آندھی کے رخ کو سمجھنے کی بجائے پولیس ایکشن پر کیوں آمادہ ہے؟ کیوں وہ یونیورسٹیوں کے طلبہ کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے؟ مذہبی تعصب پر مبنی قانون کے خلاف اس ملک کے تمام مذاہب کے انصاف پسند افراد متحد ہیں اسے منتشر کرنے کی سازش کیوں کی جا رہی ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو بیدار لوگوں کو مشتعل کر رہے ہیں اور جو اب بھی خواب خرگوش میں مبتلا ہیں انہیں بیدار کرنے کے لیے کچوکے لگا رہے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کو پہلے تو اپوزیشن جماعتوں کی کارستانی قرار دینے کی کوشش کی گئی، پھر اسے مسلمانوں کی تحریک ثابت کرنے پر زور لگایا گیا لیکن جب بڑی تعداد میں غیرمسلم بھائی اس میں نظر آئے تو اب اسے سبوتاژ کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے، اس لیے حکومت پولیس ایکشن پر اتر آئی ہے۔ پولیس نے پہلے دفعہ 144کوہتھیارکے طور پر استعمال کیا، حد یہ ہے کہ پورے ہندوستان کے ہر اس شہر میں دفعہ 144نافذ کر دیا گیا جہاں سی اے اے کے خلاف لوگ جمع ہو رہے تھے۔ یہ بھی ستم ظریفی کی بات ہے کہ پہلی بار ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر دفعہ 144نافذ کیا گیا ہے، یہ حکومت کا ایسا عمل ہے جو جمہوری مزاج کے منافی ہے۔
ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں پرامن احتجاج کرنے والے لوگوں پر پولیس نے اندھا دھند لاٹھی چارج کیے، آنسو گیس کے گولے چھوڑے، گولیاں برسائیں لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پولیس ایکشن کے دوران نہایت متعصبانہ اور اشتعال انگیز فقرے کسے گئے، جس کا اظہار طلبہ و طالبات اور نوجوانوں نے ہر جگہ کیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا پھر ملک کے دوسرے حصے، ہر جگہ پولیس کا متعصبانہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ پولیس نے ہر کارروائی کے دوران مسلمانوں کو گالیاں دیں، انہیں پاکستانی کہا، نمک حرام قرار دیا اور صاف صاف کہا کہ دیش میں رہنا ہے تو احتجاج چھوڑنا ہوگا ورنہ پاکستان چلے جاؤ۔ عجیب بات ہے کہ اس طرح کے متعصبانہ جملے پولیس نے ہر جگہ استعمال کیے، بعض جگہوں پر ان کے یہ جملے لوگوں نے موبائل میں قید کر لیے اور ویڈیو وائرل ہو گیا۔ گزشتہ دنوں وارانسی میں کچھ مسلم نوجوان جب سی اے اے کے خلاف میمورنڈم دینے کے لیے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر جا رہے تھے تو ایک پولیس افسر صاف صاف انہیں دھمکی دے رہا ہے اور بار بار اس کی زبان پر پاکستان کا نام آ رہا ہے۔ یہ ویڈیو بھی وائرل ہوا اس کے بعد میرٹھ کے سٹی ایس پی کے عصبیت زدہ اور دھمکی آمیز ویڈیو وائرل ہوا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کالی اور ہری پٹی باندھ کر مظاہرہ کرنے والوں کو میں بخشوں گا نہیں، انہیں کہو کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے ایک محلے میں جاکر کچھ بزرگوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ میں نے یہاں کی ویڈیو گرافی کرائی ہے اس لیے ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔ میرٹھ کے سٹی ایس پی کا ویڈیو وائرل ہوا تو اس پر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سٹی ایس پی کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا مگر اس کے فوراً بعد یو پی کے نائب وزیراعلیٰ نے متعلقہ ایس پی کی حمایت میں بیان دے ڈالا، جس سے صا ف ہوگیا کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔
پولیس کے متعصبانہ رویے کے سیکڑوں واقعات ہیں جو مختلف شہروں میں سامنے آئے ہیں اور مسلسل پولیس ناروا رویے پر آمادہ ہے۔ سب سے بڑامسئلہ ان لوگوں کا ہے جو گرفتار کیے جا چکے ہیں اور اس سے بھی زیادہ ان نوجوانوں کا ہے جو پولیس کے رڈار پر ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جب پولیس کا خوف سماج کی نچلی سطح تک پھیل جائے تو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے انارکی اور لاقانونیت۔ اگر سواداعظم نے پولیس سے عدم تعاون کا معاملہ شروع کر دیا تو پھر ملک کے لیے اچھی بات نہیں رہے گی، اس لیے حکومت کو فوراً سے پیشتر پولیس ایکشن کا جائزہ لینا چاہیے اور ناروا رویے کے خلاف ایکشن لینا چاہیے، ورنہ سی اے اے کے خلاف جو احتجاج کی آندھی چلی ہے اس کارخ پولیس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے بہت سے علاقوں میں حالات پولیس اور فوج کی گرفت سے باہر ہوچکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کیفیت دوسرے علاقوں میں بھی پیدا ہو جائے، اس لیے حکومت کو ہمدردانہ مشورہ ہے کہ وہ پولیس ایکشن پر لگام لگائے اور سواداعظم کے مطالبوں اور پولیس کی کارروائی کا جائزہ لینے کے لیے کوئی اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے تاکہ امن و انصاف کی راہ پرہم آگے بڑھ سکیں اور کوئی قابل عمل حل سامنے آسکے۔ اس سے پہلے کسی قسم کی املاک کی ضبطی یا افراد کے خلاف کاغذی کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)