نئی دہلی( آئی این ایس انڈیا)
ملک میں شہریت قانون کے نافذ ہونے کے بعد یوپی کی یوگی حکومت نے اپنے یہاں 37 ہزار پناہ گزینوں کی شناخت کا دعوی کرتے ہوئے انہیں شہریت دینے کی بات کہی تھی۔ ریاستی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 21 اضلاع میں ایسے 37 ہزار پناہ گزینوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں اس قانون کے تحت شہریت دینے کے عمل کو شروع کیا جائے گا۔ یوپی حکومت کے اس دعوے پرنجی ٹی وی نے جب پڑتال کی تو کئی چونکانے والی معلومات سامنے آئی۔ پتہ چلا کہ یوپی حکومت نے شہریت قانون کو لے کر قوانین بننے سے پہلے ہی ان پناہ گزینوں کی شناخت کر لی ہے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت نے کس بنیاد پر ان لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ ہماری پڑتال میں پتہ چلا کہ یوپی حکومت نے پناہ گزینوں کی فہرست بغیر تاریخ، بغیر نشانات اور بغیر دستخط والے دستاویزات کی بنیاد پر تیار کی ہے۔بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ فہرست بناتے وقت حکومت کی طرف سے ان لوگوں سے مہاجر ہونے یا مذہبی ظلم و ستم کا کوئی ثبوت نہیں مانگا گیا ہے، اس لیے سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت نے شہریت دینے کو لے کر جو فہرست تیار کی ہے اس میں جلدی کی گئی ہے ۔نجی ٹی وی NDTV نے اپنی پڑتال میں ایسے کچھ لوگوں سے بات بھی کی ،جنہیں اوورسیز بتایا جا رہا ہے۔NDTV سے بات چیت میں ایک شخص نے کہا کہ ہمارے پاس مذہبی طور پر ہراساں کیا کئے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم یہاں طویل مدت رہ رہے ہیں اور ہمارے پاس اب یہاں کا راشن کارڈ بھی ہے۔ وہیں ایک بزرگ نے کہا کہ مجھے یہاں رہتے ہوئے 50 سال ہو چکے ہیں، اب ہم اس کا ثبوت کس طرح دکھائیں گے کہ ہمارے ساتھ وہاں رہتے ہوئے ظلم ہوا ہے۔ اس معاملے کو لے کر یوپی حکومت کی طرف سے صفائی بھی آئی ہے۔ یوپی حکومت نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ سی اے اے فہرست ابھی ایک غیر رسمی قواعد ہے۔ اور فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست اب دہلی نہیں بھیجی گئی ہے. ادھر پی آئی بی کے دعوے کے مطابق کسی بھی غیر ملکی کو اپنے آپ شہریت نہیں ملے گی، جو لوگ تحقیقات کے بعد حکومت کی طرف سے بنائے گئے پیمانوں پر پورا اتریں گے انہیں ہی شہریت دی جائے گی ۔خیال رہے کہ کچھ وقت پہلے یوپی کے وزیر اور حکومت کے ترجمان سری کانت شرما نے کہا تھا کہ ہم اس میں کوئی جلد بازی نہیں کر رہے ہیں ،ابھی صرف شروعات ہوئی ہے۔ سری کانت شرما نے یہ بھی کہا کہ یہ مستقل جاری رہنے والا عمل ہے، ہم اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں گے ، تمام ضلعی حکام سے سروے کروانے اور فہرست کو اپ ڈیٹ کرتے رہنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ ہم اس فہرست کو مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجنے کی بھی عمل شروع کر رہے ہیں،جن لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ان میں ایک حصہ پیلی بھیت میں آباد لوگوں کا ہے۔صوبہ کی راجدھانی لکھنو¿ سے تقریبا 260 کلومیٹر دور قائم پیلی بھیت ضلع اتراکھنڈ اور بھارت کی نیپال سے ملحق سرحد کے قریب ہے ۔سرکاری افسر شان شریواستو نے جمعہ دوپہر کو مقامی صحافیوں سے کہا تھا کہ ابتدائی سروے کے تحت بنگلہ دیش (ماضی میں مشرقی پاکستان) سے آئے 37000 پناہ گزینوں کی شناخت کر لی گئی ہے، اور ریاستی حکومت کو نام بھیج دیئے گئے ہیں۔ شان شریواستو کے مطابق کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ملک میں تشدد کا شکار ہونے کی وجہ سے پیلی بھیت آکر آباد ہوئے تھے،اس بات کو لے کر کوئی وضاحت نہیں مل پائی ہے کہ ریاستی حکومت کی طرف سے بتائے گئے اعداد و شمار میں فرق کیوں ہے ۔ کالی باد ہلدر نے کہا تھا کہ میں خوش ہوں کہ حکومت نے ہمارے حق میں اس پر فیصلہ کیا۔اس سے میرے جیسے لوگوں کو امید قائم ہوئی ہے ۔ انہوںنے بتایا تھا کہ ان کا خاندان 1960 کی دہائی میں اس وقت کے مشرقی پاکستان سے آیا، اور مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں رہنے کے بعد 1984 میں وہ پیلی بھیت میں آکر بس گئے تھے۔ یوپی بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جن شہریت ترمیمی قانون کو لے کر پرُتشدد احتجاج ہوا تھا۔ گزشتہ ماہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 21 افراد جاں بحق ہوئے ہیں،مبینہ طور پر 300 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے، سخت احتجاج کے بعدبھی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھاکہ’نیا قانون واپس نہیں لیا جائے گا‘۔شہریت ترمیم قانون میں پہلی بار مذہب کو شہریت کا پیمانہ بنایا گیا ہے،جو کہ دستوری طور پر ناجائز ہے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد تین مسلم اکثریتی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے چھ اقلیتی فرقوں (جن مسلم شامل نہیں ہیں) کو شہریت دی جائے گی جنہوں نے اپنے ملک میں مظالم کا شکار ہونے کے بعد بھارت میں پناہ مانگی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ (NRC) کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ سراسر مسلمانوں کے خلاف ہے۔






