نئی دہلی (آئی این ایس انڈیا)کپل سبل نے این پی آر کے متعلق مودی حکومت سے سوال اٹھایا ہے۔ نجی ٹی وی این ڈی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے دعوی کیا کہ این پی آر میں بہت زیادہ فرق ہے جو 2003 کے مقا بلہ میں اب کیا جائے گا۔ سبل نے کہا کہ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کو پہلے کے این پی آر اور اب این پی آر میں فرق بتا سکتا ہوں۔ پہلے این پی آر مردم شماری کا ایک عام عمل تھا ، لیکن اگر آپ کے پاس اور آپ کے والدین کے کاغذات مودی حکومت کے وقت کے این پی آر میں جمع نہیں کیے جاتے ہیں ، تو آپ کے گھر آنے والا سرکاری افسر آپ کی شہریت پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، پھر آپ کو اپنی شہریت سے متعلق دستاویزات اگلے 30 دن میں پیش کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ آج ملک میں لوگوں سے ایسے کاغذات طلب کیے جارہے ہیں۔میں خود مہاجر ہوں ، اور میرے پاس خودکو یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزات نہیں ہیں کہ مجھ سے پہلے لوگ کتنے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یہی حال ملک کے غریبوں کا ہے۔ ملک میں ایسی بہت سی ریاستیں ہیں جہاںہر سال سیلاب آتاہے۔ اور لوگ سیلاب میں بہہ گئے۔ ایسی صورتحال میں اگر سرکار ان سے کاغذات مانگ کر شہریت کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ کاغذات کہاں سے لائیں گے۔کپل سبل نے مختلف ریاستوں کے گورنروں کے کام کرنے کے طریقے پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ کے گورنر کو متنازعہ بیان دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں کئی سارے گورنرس ہیں جو لوگوں کو مشتعل کررہے ہیں۔ ان کا کام اب صرف نئے تنازعات پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت سے بھی سوال پوچھے۔ انہوں نے کہا کہ خود وزیر اعظم مودی جان بوجھ کر تنازعہ پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج وزیر اعظم اور ان کی حکومت اصل مسئلے سے ہٹ رہی ہے۔ آپ جانتے ہو کہ ملک کی معاشی صورتحال کی کیا حالت ہے۔ نوجوان جانتے ہیں کہ تعلیم کے بعد بھی انہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان کہ ہم (حزب اختلاف) کام نہیں کرنا چاہتے۔ ہم CAA نہیں لائے ہیں۔ سی اے اے تو وہ خود لے کر آ ئے ہیں، وزیر اعظم ہمیشہ پاکستان یا کانگریس پارٹی کی بات کرتے ہیں۔ میں وزیر اعظم کو مشورہ دوں گا کہ وہ ہندوستان کو طرف دیکھیں آپ کو ہندوستان کے لوگوں کے لئے سوچنا چاہئے۔ کپل سبل نے شاہین باغ میں سی اے اے کےخلاف احتجاج پر بیٹھی خواتین کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم امن سے احتجاج کریں، لیکن اگر احتجاج پرامن نہیں ،پرُ تشدد ہے تو آپ اس پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ لیکن شاہین باغ میں سب کچھ پر امن طریقہ کار سے ہورہا ہے۔ میں وزیر اعظم سے پوچھنا چاہتا ہوں ، وہ لوگ جو ماسک پہن کرجے این یو کی طلبا کی پٹائی کررہے تھے، ان کوکیوں نہیں پہچان سکے،جب کہ وہ کپڑے سے شناخت کرنے کی بات کرتے ہیں۔






