مولاناسید احمد ومیض ندوی
اس کائنات میں حضرت انسان پر اللہ نے جن نعمتوں کی بارش فرمائی ہے ان میں ایک جانور اور چوپائے ہیں، روئے زمین پر حضرت انسان کی بقا کے لئے جانور اور چوپائے بھی ایک ناگزیر ضرورت ہیں، قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دیگر نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے وہیں جانوروں اور چوپایوں کا بھی ذکر فرمایا ہے، سورۃ النحل میں اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے جانوروں اور چوپایوں کے فوائد پر یوں روشنی ڈالی گئی ’’وَالأَنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیْہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ.وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُونَ وَحِیْنَ تَسْرَحُونَ.وَتَحْمِلُ أَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَّمْ تَکُونُواْ بَالِغِیْہِ إِلاَّ بِشِقِّ الأَنفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ.وَالْخَیْْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِیْنَۃً وَیَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُون‘‘ (النحل:۵۔۸) اور اسی (خدا) نے چوپایوں کو بنایا ان میں تمہارے لئے جاڑے کا بھی سامان ہے(جانوروں کے بال اور کھال سے انسان کے کپڑے بنتے ہیں) اور بھی بہت سے فائدے ہیں (دودھ سواری بار برداری وغیرہ) اور ان میں (جو کھانے کے قابل ہیں ان کو) کھاتے بھی ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری رونق بھی ہے، جب کہ شام کے وقت جنگل سے گھر لاتے ہواور جب کہ صبح کے وقت گھر سے جنگل کو چھوڑ دیتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ بھی لاد کر ایسے شہر کو لے جاتے ہیں جہاں تم بدنون کو محنت میں ڈالے ہوئے نہیں پہونچ سکتے، واقعی تمہارا رب بڑی شفقت ورحمت والا ہے( کہ تمہارے آرام کے لئے کیا کیا سامان پیدا کئے) اور گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی پیدا کئے تاکہ ان پر سوار ہواور نیز زینت کے لئے بھی اور وہ ایسی ایسی چیزیں بناتا ہے جن کی تم کو خبر بھی نہیں، سورۂ نحل ہی میں ایک دوسرے مقام پر بطور خاص جانوروں کے ذریعہ انسانوں کے لئے دودھ کی فراہمی کا تذکرہ یوں کیا گیا’’وَإِنَّ لَکُمْ فِیْ الأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشَّارِبِیْن‘‘(النحل:۶۶)اور نیز تمہارے لئے مواشی میں بھی غور درکار ہے (دیکھو) ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے اس کے درمیان میں سے صاف اور گلے میں آسانی سے اترنے والا دودھ بنا کر ہم تم کو پینے کو دیتے ہیں۔
جانور اور چوپائے اللہ کی نعمت ہیں، ان میں سے بہت سے جانوروں کو ا للہ تعالیٰ نے حلال فرمایا، ان کے گوشت سے بھی استفادہ کا حکم دیا گیا اور انھیں دودھ اور باربرداری کے لئے استعمال کی اجازت دی گئی، جانوروں کو وجود بخشنے والے رب کا منشأ یہ ہے کہ حضرت انسان جو کہ ا شرف المخلوقات ہے اللہ کی اس عظیم نعمت سے فائدہ بھی اٹھائے اور اس کا حق بھی ادا کرے، چنانچہ گائے، بیل، بھینس، بکرا، دنبہ ،اونٹ وغیرہ جانوروں کو انسان کے لئے حلال کیا گیا، جب جانوروں کا خالق خود ان کے استعمال کی اجازت دے رہا ہے تو پھر اسے کوئی انسان کیونکر حرام قرار دے سکتا ہے، حلال جانوروں میں گائے کا بھی شمار ہے، اللہ کا ارشاد ہے : أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَۃُ الأَنْعَامِ(المائدہ:۱) چوپائے (اونٹ گائے بکری) کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے، دوسری جگہ ارشاد ہے: وَمِنَ الإِبْلِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْْنِ قُلْ آلذَّکَرَیْْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَیَیْْن (الانعام:۱۱۴) قرآن مجید میں صاف کہہ دیا گیا کہ جن پاکیزہ چیزوں کو اللہ نے حلال کیا ہے انھیں کوئی حرام قرار نہیں دے سکتا، ارشاد ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْق(الاعراف:۳۲) گائے اور دیگر حلال جانور نہ صرف کھانے کے لئے حلال ہیں بلکہ انھیں راہِ خدا میں قربان کرنے کی بھی اجازت دی گئی، ارشاد ربانی ہے: لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْبَاءِسَ الْفَقِیْر(الحج:۲۸) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ضیافت کا تذکرہ ہے جب ان کے پاس مقدس مہمان (فرشتے) انسانی صورت میں آئے تو انہوں نے فورا بھنا ہوا گائے کا بچھڑا لاکر رکھ دیا، ارشاد ربانی ہے: فجاء بعجل سمین حضرت ابراہیم علیہ السلام بھنا ہوا فربہ بچھڑا لے آئے، صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ خود نبی رحمت ﷺ نے بھی گائے ذبح فرمایا اور اس کے گوشت کے کھانے کا حکم فرمایا، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: فدخل علینا یوم النحر بلحم البقرۃ فقلت ما ہذا قال نحر النبيﷺ عن أزواجہ.(متفق علیہ) ہمارے پاس یوم النحر میں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو لانے والے نے کہا کہ حضورﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے، اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت میں ہے: آپ نے حکم دیا تو گائے ذبح کی گئی، چنانچہ سبھوں نے اس کا گوشت کھایا(صحیح بخاری) حضرت عائشہؓ کا بیان ہے حضورﷺ کی خدمت میں گائے گوشت لایا گیا اور آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ کو صدقہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا وہ اس کے لئے تو صدقہ ہے لیکن جب اس نے مجھے دیا تو اس کی حیثیت ہدیہ کی ہے(مسلم شریف)
ان ساری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ گائے پاکیزہ حلال جانوروں میں سے ہے، اسلام ہی نہیں قدیم ویدک دھرم میں بھی گوشت خوری اور گاؤ کشی کا تصور ملتا ہے، آریا ورش گؤ پالک تھے، غذا کے لئے اس کو استعمال کرتے تھے، شادی بیاہ اور دیگر رسم ورواج میں گایوں اور بھیڑیوں کو کاٹ کر عام دعوت کی جاتی تھی، بن واس میں رام لکشمن خود شکار کرکے جانوروں کا گوشت کھاتے تھے اور سیتا کو بھی کھلاتے تھے،اس لئے منوسمرتی میں کہا گیا ہے: ہر مہینہ جو شرادھ کیا جاتا ہے وہ ایشور وادی کہلاتا ہے، اس کو اچھے ماس (گوشت) سے کرنا چاہئے (منو سمر تی:۱۲۳؍۳)سوامی وویکا نند نے کہا تھا ’’آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پراچین کرم کانڈ کے مطابق وہ اچھا ہندو نہیں جو گؤ ماس نہیں کھاتا،اسے کچھ خاص اوسروں پربیل کی بلی دے کر ماس اویشہ کھانا چاہئے۔(THE COMPLETE WORK OF VIVEKANAND VOL: 3 PAGE 536)
اس سے بھی آگے سوامی جی فرماتے ہیں کہ بھارت میں ایک سمے ایسا بھی رہا ہے کہ جب بنا گؤ ماس کھائے کوئی برہمن، برہمن نہیں رہ سکتاتھا (PAGE:174) ڈاکٹر ایم آپٹے کا خیال ہے جو انہوں نے اپنی کتاب میں صاف طور پر تحریر کیا ہے:’’اگر ویدھ کے ایک سوکت(۱۰؍۸۵) سے جسے ووھا سوکت کہتے ہیں شادی کے اہم رسم ورواج کا پتہ چلتا ہے، دلہا اور بارات دلہن کے گھر جاتے تھے وہاں دلہن بارات کے ساتھ مل کر کھانا کھاتی تھی، مہمانوں کو اس ا وسر پر ماری گئی گایوں کا ماس پروسا جاتا تھا (۱۰ ؍ ۸۵ ؍ ۳ ۱ ) یجروید میں گائے کی چربی سے اجداد کو آسودگی ملنے کا بیان ہے(یجروید ادھیائے ۳۵:منتر ۲۰)سوامی وویکانندسے کسی نے پوچھا کہ بھارت ورش کا سب سے سورن کال کونسا تھا انہوں نے جواب میں کہا: ویدک یگ سورن یگ تھا جب پانچ برہمن ایک گائے چٹ کرجاتے تھے۔(VIVEKANAND BIOGR)
اپنشدوں میں خاص کر براہدا کو اپنشد ۱۸؍ ۴؍ ۶ میں کہا گیا: جو یہ چاہے کہ میرا بیٹا سبھاؤں میں واگمی (فصیح اللسان) اور سب ویدوں میں پارنگت ہو تتھا شتایوں ہو اسے چاہئے کہ وہ اور اس کی پتنی بیلوں سانڈ کا ماس پکا کر گھی اور بھات ملا کر کھائے۔
مذکورہ صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ویدک دور میں بھی گوشت خوری اور گؤ ہتھیا کا سلسلہ تھا، ادھر کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میں جانوروں بالخصوص گائے کو لیکر خوب اودھم مچایا جارہا ہے، بعض حلقے اس حوالے سے شدید افراط وتفریط کا شکار ہیں، ایک طرف گائے کے تحفظ کا بہانہ بناکر انسانوں کو گایوں کے بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، دوسری جانب نام نہاد گؤ رکشک گؤ شالاؤں میں محفوظ گایوں کو چارہ پانی نہ دے کر انھیں تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کررہے ہیں، سال گذشتہ بیف کی موجودگی کے شبہ میں دادری کے اخلاق کو مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، گجرات میں گائے کی کھال اتارنے والے دلتوں پر تشدد کرکے کئی دلتوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، ملک کے دیگر خطوں میں بھی نام نہاد گاؤ رکشک گائے کے گوشت کے شبہ میں اقلیتوں کو ہراسانی میں مبتلا کررہے ہیں، گذشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے مندسور میں جوراجدھانی بھوپال سے صرف ۳۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے پولیس کی آنکھوں کے سائے میں دو مسلم خواتین کو بیف رکھنے کے الزام میں زدوکوب کرکے بے حال کردیا گیا، دونوں خواتین منت سماجت کرتی رہیں کہ یہ گوشت بیف نہیں ہے چاہیں تو جانچ کروالیں، لیکن ان کی ایک سنی نہیں گئی، اور پچاس ساٹھ آدمیوں نے مل کر انھیں بری طرح پیٹا، ایک طرف محض شبہ کی بنیاد پر بے قصور شہریوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، دوسری جانب خود نام نہاد گاؤرکشکوں کا حال بتارہا ہے کہ انھیں گایوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، راجستھان جہاں بی جے پی سرکار ہے وہاں کئی گاؤ شالاؤں کا بدترین احوال گذشتہ دنوں الیکٹرانک میڈیا کی سرخیوں میں رہا، جے پور کے مشہور ھمونیا گاؤ شالہ میں ستر گائے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرگئیں، مہینوں سے ان گایوں کو نہ چارہ دیا گیا نہ پانی، گاؤ رکشک گایوں کے نام پر نوٹ چھاپتے رہے اور گائیں مرتی رہیں، بعض مقامی افراد کے مطابق تقریبا ۲۵۰ گائے بھوک کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئیں، یہ وہی گاؤ شالہ ہے جہاں گذشتہ پانچ سالوں میں بیس کروڑ کا چارہ گھوٹالہ کیا گیا، نام نہاد گاؤ رکشکوں نے گایوں کے چارے پانی اور کھلی تک کو نہ چھوڑا، کروڑوں روپئے کا چارہ ہضم کرگئے۔
دین ا سلام واحد دین ہے جو جانوروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مناسب دیکھ بھال کے حوالے سے واضح تعلیمات رکھتا ہے، نبی رحمتﷺ کو سارے عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، آپ نے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید فرمائی، آپ کا ابرِ رحمت جہاں انسانی طبقات پربرسا وہیں جانوروں اور چرند پرند پر بھی برسا، آپ نے بے زبان جانوروں کے تعلق سے اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ’’اتقوا اللہ في البہائم المعجمۃ فارکبوہا صالحۃ وکلوہا صالحۃ‘‘(ابوداؤد:۱؍۳۴۵) بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر بھلے طریقے سے سواری کرو اور بھلے طریقوں سے انہیں کھاؤ، آپ نے جانوروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا، اور جو جانور جس کا م کے لئے ہے اس سے وہی کام لینے تاکید فرمائی، چنانچہ حدیث میں وارد ہے: تم اپنے چوپایوں کی پیٹھوں کو منبر نہ بنا لو، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمھارے لئے مسخر فرمایا تاکہ تم اپنے شہر کو پہونچ سکو جہاں مشقت کے بغیر تم نہیں پہونچ سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین بنائی، اس پر اپنی ضرورتیں پوری کرلو، ایک روایت میں آپ نے فرمایا: چوپایوں کو کرسیاں نہ بناؤ۔(مسند احمد:۱۵۲۳۹) آپ نے جانوروں کو بھوکا رکھنے سے منع فرمایا، ایک مرتبہ آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، اس میں ایک اونٹ تھا وہ آپ کو دیکھ کر سسکنے لگا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے، آپ اس کے پاس گئے اس کی گردن اور کوہان کو سہلایا تو اونٹ سسکنا بند کردیا، آپ نے دریافت کیا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک نوجوان اٹھا، اس نے بتایا کہ یہ میرا اونٹ ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم اس جانور کے بارے میں اللہ سے ڈرتے نہیں ہو جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے، یہ اونٹ مجھ سے شکایت کررہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس کو مسلسل خوب تیز ہانکتے ہو۔(ابوداؤد:۱؍۳۴۵)دورانِ سفر بھی آپﷺ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جانوروں کو چرنے کا موقع دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہے: جب تم ہریالی کی جگہ سفر کرو تو اونٹ کو زمین میں چرنے کا حق دو، اور جب خشک سالی میں سفر کرو تو تیز تیز سواری دوڑاؤ، اور اس کو جلد پانی کی جگہ پہونچاؤ، جب تم رات میں کہیں قیام کرو تو راستے سے ہٹ کر ٹھہرو، کیوں کہ یہ رات میں جانوروں کی گذرگاہ اور حشرات الارض کا ٹھکانہ ہے۔(مسلم:۲؍۱۴۴)جانوروں پر زیادہ افراد سوار کئے جانے سے بھی آپ نے منع فرمایا ، چنانچہ حدیث میں صحابہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک جانور پر تین آدمیوں کے سوار ہونے سے منع فرمایا(المعجم الاوسط:۷۵۱۲)حتی کہ جانوروں کو برا بھلا کہنے سے بھی آپ نے منع فرمایا، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: لا تسبوا الدیک فإنہ یوقظ للصلاۃ (ابوداؤد:۲؍۶۹۶)مرغ کو گالی نہ دو، کیوں کہ وہ نماز کے لئے بیدار کرتا ہے، نیز آپ نے جانوروں پر لعنت کرنے سے منع فرمایا، ایک انصاری خاتون آپ کے ساتھ سفر میں تھیں، وہ اونٹنی پر سوار تھیں، ان کی اونٹنی پر کچھ لوگوں کا سامان تھا، خاتون نے کسی بات پر غصہ میں آکر اونٹنی پر لعنت کی، آپ نے اس اونٹنی پر سے سامان ہٹا لینے کا حکم فرمایا۔(مسلم:۲؍۳۲۳) جانوروں کے ساتھ حسن سلوک یہ عالم تھا کہ آپ جانوروں کی پیاس کا تک خیال رکھتے تھے، اور دورانِ وضو بلی کو اپنے برتن سے پانی پلاتے، اور پھر اسی بچے ہوئے پانی سے وضو فرمالیتے۔(شرح معانی الاثار:۱؍۱۱) زمانۂ جاہلیت میں محض تفریح کے لئے جانوروں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، نیز پرندوں کو باندھ کر انہیں نشانہ لگایا جاتا تھا، نبی کریمﷺ نے اس سے منع فرمایا، سعید ابن جبیرفرماتے ہیں کہ میں ابن عمرؓ کے ساتھ تھا، ان کا گذر چند نوجوانوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کررہے تھے، جب ابن عمر کو دیکھا تو وہ اِ دھر اُدھر بھاگ گئے، ابن عمر نے فرمایا: کس نے ایسا کیاہے؟ نبی کریمﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔(بخاری، باب المثلثۃ والمصبورۃ والمجثمۃ) اسی طرح نبی رحمتﷺ نے جانوروں کے چہروں کو داغنے اور چہروں پر مارنے سے منع فرمایا، چنانچہ حدیث میں وارد ہے: نہی رسول اللہﷺ عن الضرب في الوجہ وعن الوسم في الوجہ نیز آپ نے جانوروں کے گالوں پر طمانچہ مارنے سے بھی منع فرمایا(مسلم:۲؍۲۰۲)
زمانۂ جاہلیت میں لوگ تفریح کے لئے جانوروں کو آپس میں لڑایا کرتے تھے، یورپ میں آج بھی بُل فائٹنگ کے نام سے بیلوں کی لڑائی کرائی جاتی ہے، لوگ زخموں سے چور جانوروں کو مرتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، نبی رحمتﷺ نے اس سے منع فرمایا، نیز آپ نے جانوروں کا مثلہ یعنی کچھ عضو کاٹ کر اس کا چہرہ بگاڑ دینے سے بھی منع فرمایا، چناچہ سیدنا عبد اللہ بن جعفر کا بیان ہے کہ حضورﷺ کا گذر چند لوگوں کے پاس سے ہوا، وہ لوگ ایک مینڈھے پر تیر سے نشان لگارہے تھے، آپ نے اسے ناپسند کیااور فرمایا: جانوروں کامثلہ نہ کرو۔(سنن نسائی:۲؍۲۰۱) جانوروں کے ساتھ حسن سلوک پر مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ آپ نے ایک عورت کا ذکر فرمایا، جس نے ایک پیاسے کتے کو کنویں کے ا رد گرد چکر لگاتا دیکھ کر اپنا موزہ نکالا اور اس کتے کو پانی پلایا، یہ ایک بدکار عورت تھی ، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔(بخاری:۱؍۴۹۳)ایک مرتبہ صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ بھلائی کرنے میں بھی ہمیں ثواب ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہر تازہ جگر والے یعنی ہر زندہ روح کے ساتھ حسن سلوک میں ثواب ہے۔(بخاری:۱؍۳۱۸)جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو چھری تیز کرلی جائے، تاکہ جلد ذبح کا عمل ہو اور جانور زیادہ دیر تک تڑپتا نہ رہے، اسلام میں گوشت خوری کی اجازت ضرور دی گئی لیکن بلا و جہ جانوروں کو مار ڈالنے کی اجازت نہیں، کسی صاحب نے ایک گوریا کو پکڑ رکھا تھا، آپ نے فرمایا: بلا ضرورت ایک گوریا کو ذبح کرنے پر جواب دہی ہے، اس لئے جو چیزیں انسان کے کام نہیں آتیں آپ نے ان کو مارنے سے منع فرمایا، چنانچہ چیونٹی، شہد کی مکھی اور ہدہد وغیرہ کے مارنے سے ممانعت کی گئی، یہ وہ تعلیمات ہیں جن سے جانوروں کے سلسلے میں حسن سلوک کی تاکید ہوتی ہے، گایوں کے ساتھ موجودہ ظالمانہ رویہ ان تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔(ملت ٹائمز)
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335