اندور، بھوپال(آئی این ایس انڈیا)
شہریت ترمیمی قانون (سی ا ے اے) کی مخالفت میں بی جے پی کے 50 سے زیادہ مسلم کارکنوں اور عہدیداروں نے جمعرات کو پارٹی سے اجتماعی استعفیٰ دے دیا۔ بی جے پی کو الوداع کہنے والے ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہندو- مسلم مسائل کا اختتام ہونا چاہئے، لیکن ایک کے بعد ایک مسئلہ سامنے آتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معیشت اور روزگار جیسے مسائل پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ جمعرات کو اندور میں استعفیٰ دینے والے بی جے پی کارکنوں نے میڈیا سے کہا کہ موجودہ صورتحال کی بات کریں تو ملک میں امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ کشمیر سے دفعہ 370 منسوخ کیا گیا تو ہم نے کہا کہ اچھا ہوا۔ ہم اس کے حق میں تھے کہ اب کشمیر میں ہم بھی جا کر رہ سکتے ہیں، طلاقِ ثلاثہ پر پابندی لگادی گئی تو ہم نے کسی طرح کا ہندو- مسلم نامی تنازعہ نہیں کیا۔ بابری مسجد کے فیصلے میں بھی مندر کے ساتھ مسجد کو بھی جگہ دی جا رہی ہے۔ اس ملک میں ہندو -مسلم نامی خانگی تنازعہ کب تک چلے گا، ایک مسئلہ ختم ہوتا نہیں کہ دوسرا مسئلہ ہندو-مسلم کے موضوع پر پیدا کر لیا جاتا ہے ۔بتدریج نئے نئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں جو ہندوستانیت کے لیے خطرناک ہیں ۔ ہم ہندو- مسلمان کی بجائے معیشت، روزگار کی بات کب کریں گے۔ نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی طریقہ¿ کار سے ناراض ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ سی اے اے کی مخالفت کرتے ہیں اور مجوزہ اےن آرسی کے ساتھ ہی این پی آر کی بھی مخالفت کریں گے۔بی جے پی سے استعفیٰ دینے والوں میں اندور کے ساتھ صوبہ کے مختلف اضلاع کے بی جے پی اقلیتی مورچہ کے عہدیدار شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اب سب کی پارٹی نہیں رہی، یہاں سب کے لئے انصاف نہیں ہے۔ جس قانون کی ضرورت نہیں تھی، اسے جبراً نافذ کیا جارہا ہے ۔، بنا بریں ہم اس کی مخالفت میں پارٹی سے احتجاجاً استعفیٰ دے رہے ہیں ۔پارٹی سے استعفیٰ دینے والوں میں را زق فرشی والا بھی شامل ہیں، جو بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگی کے خصوصی حامی مانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیواس کی اٹاوہ سے کونسلر شبانہ رئیس خان،کھرگون اقلیتی مورچہ کے ضلع صدر تسلیم خان، اقلیتی مورچہ مدھیہ پردیش کی رکن سعیدہ خان، اقلیتی مورچہ مدھیہ پردیش کے میڈیا انچارج عارف شیخ، ریحان چوہدری، اقلیتی مورچہ کے شہر جنرل سکریٹری وسیم خان وغیرہ شامل ہیں ۔






