میرے حوالے سے جو ویڈیو وائرل کی جارہی ہے وہ شہر دیوبند کے معززافراد اور اعلی افسران کے ساتھ دیوبند میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں ایک مشاورتی میٹنگ تک محدود تھی جس میں باہمی گفت وشنید کو میری حتمی رائے مان کر یہ تاثر دینا کہ دارالعلوم دیوبند خواتین کی اس تحریک کو ختم کرانا چاہتاہے سراسر بے بنیاد اور غلط ہے
دیوبند (ملت ٹائمز)
سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جاری احتجاج کو ختم کرنے کے سلسلے میں جو ویڈیو آج صبح سے وائرل ہورہی ہے اس پر دارالعلوم دیوبند نے وضاحت کی ہے کہ ایسی کوئی اپیل دارالعلوم دیوبند نے جاری نہیں کی ہے اور ویڈیو کا تعلق باہمی گفت وشنید سے ہے حتمی رائے نہیں ہے ۔
دارالعلوم دیوبند کے لیٹر ہیڈ پر وہاں کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے ایک بیان جاری کیاہے جس میں انہوں نے کہاکہ متنازع شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف جو ملک گیر تحریک چل رہی ہے دارالعلوم دیوبند اس کی قدر کرتاہے اور اسے جاری رہنا چاہیئے ۔ دارالعلوم دیوبند بھی اس سلسلے میں صدر جمہوریہ ہنداور چیف جسٹس آف انڈیا کو میمورنڈم پیش کرچکاہے کہ یہ آئین اور دستور کے خلاف ہے ۔اس بیان میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے وائرل ہورہی ویڈیو پر صفائی دیتے ہوئے کہاہے کہ میرے حوالے سے جو ویڈیو وائرل کی جارہی ہے وہ شہر دیوبند کے معززافراد اور اعلی افسران کے ساتھ دیوبند میں امن وامان برقرار رکھنے کے سلسلے میں ایک مشاورتی میٹنگ تک محدود تھی جس میں باہمی گفت وشنید کو میری حتمی رائے مان کر یہ تاثر دینا کہ دارالعلوم دیوبند خواتین کی اس تحریک کو ختم کرانا چاہتاہے سراسر بے بنیاد اور غلط ہے ۔ میرے بیان کو غلط انداز سے پیش کیا جارہاہے ۔ واضح کیا جاتاہے کہ دارالعلوم دیوبند نے احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کی کوئی اپیل جاری نہیں کی ہے ۔ ہم تمام پرامن جدوجہد کرنے والوں کے حق میں دعاءگو اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں ۔
واضح رہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے اور اس کی بنیاد ان کی تنقید کی جارہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک منٹ 56 سیکنڈ کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو فی الحال احتجاج بند کردینا چاہیئے کیوں کہ این آرسی پر ایک طرح سے فی الحال مطالبہ پورا ہوگیاہے اور وزرات داخلہ نے یقین دہانی کرادی ہے کہ فی الحال این آرسی نہیں نافذ ہوگی اس لئے فی الحال احتجاج بھی بند کردینا چاہیئے۔
ملت ٹائمز کو ملی تفصیلات کے مطابق دیوبند میں گذشتہ ایک ہفتہ سے دہلی کے شاہین باغ کی طرح خواتین کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس احتجاج میں دیوبند کی کسی اہم مذہبی ،ملی تنظیم اور مدرسہ کی نمائندگی نہیں ہے نہ ان کا سپورٹ ہے بلکہ عام خواتین خود سے احتجاج کررہی ہیں۔ سرکاری انتظامیہ اس احتجاج سے پریشان ہے اور کئی مرتبہ ختم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ 6فروری کو سہارنپور کے ڈی ایم اور دیگر افسران نے دیوبند کے سرکاری گیسٹ ہاس میںدوپہر کو ایک میٹنگ طلب کی جس میں انہوں نے دیوبند کے تمام سیاسی ،سماجی ،ملی اور مذہبی سرکردہ افراد کو مدعو کیا۔ اس میٹنگ میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی۔ نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدارسی۔ دیوبند کے سابق ایم ایل اے معاویہ علی۔ دیوبند کے سابق چیرمین ضیائ الدین انصاری۔ مولانا مزمل مہتمم جامعة الشیخ سمیت تقریبا سبھی مدارس کے مہتمم بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں ڈی ایم نے کہاکہ وزرات داخلہ نے پارلیمنٹ میں واضح کردیاہے کہ ابھی این آرسی لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اس لئے آپ خواتین سے اپیل کریں کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیں اور ہماری مدد کریں۔ہم نے ہمیشہ آپ لوگوں کا ساتھ دیاہے اور دیوبند کا ماحول خراب نہیں ہونے دیاہے۔ اس میٹنگ میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس میں بدر کاظمی۔ مولانا مزمل آسامی۔ضیا ئ الدین انصاری وغیرہ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ خواتین سے بات چیت کریں گے۔اسی میٹنگ میں مفتی ابو القاسم نعمانی نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہاکہ ”وزرات داخلہ کی طرف سے جو یقین دہانی کرائی گئی ہے اس میں ابھی اور تبھی کا جو فرق ہے اسکی وجہ سے بہت سارے لوگ مطمئن نہیں ہیں لیکن فی الحال اتنا ہوگیا کہ ابھی نافذ نہ کرنے کی یقین دہانی حکومت کی طرف سے ہوگئی ہے جس کو کسی نہ کسی درجہ میں کامیابی سمجھنی چاہیئے۔ اس کامیابی کی بنیاد پر خواتین سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ فی الحال دھرنا ختم کردیں۔آگے جو مسائل باقی رہ گئے ہیں وہ عدالت میں زیر غور ہیں کچھ سی اے اے سے متعلق ہیں۔ اگر وہ بھی حل ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کو ضرروت نہیں رہے گی اور اگرحل نہیں ہوتا ہے تو پھر آپ کو قانونی حق برقرار ہے اور اس بارے میں غورکیجئے گا۔ شہرکے افراد کو یہ کام کرنا چاہیئے کیوں کہ ہمارا اور ہمارے ادارے کا ان خواتین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہر کے افراد اگربات کرتے ہیںتو خواتین کو ان کی بات مان لینی چاہیئے“۔
https://www.facebook.com/stqasmi/posts/2500064980235848?comment_id=2500249200217426¬if_id=1581071278577395¬if_t=feed_comment
سرکاری گیسٹ ہاﺅس میں جو بات چیت ہوئی اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 6 فروری کی شام کو دیوبند کے محمود ہال میں خواتین کے ساتھ ایک میٹنگ بھی ہوئی لیکن بات نہیں بنی اس کے بعد ضیائ الدین انصاری۔ مولانا مزمل اور دیگر حضرا ت عید گاہ پہونچے جہاں خواتین کا احتجاج جاری ہے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ ااحتجاج ختم کردیں لیکن خواتین نے ان کی نہیں سنی اور گو بیک کا نعرہ لگایا۔ کچھ عورتوں نے اپنی چوڑیاں ان پر پھینک دی اور کہایہاں سے بھاگ جاﺅ۔ جب تک سی اے اے کو واپس نہیں لیاجائے گا ہم اپنااحتجاج جاری رکھیں گے۔
ماہرین این پی آرکو ہی این آرسی کا پہلا قدم بتارہے ہیںاور حکومت کے اس جواب کو گمراہ کرنے سے تعبیر کررہے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملک بھر میں ہونے والا احتجاج بنیادی طور پر متنازع شہریت قانون کے خلاف ہے کیوں کہ یہ بھارت کے آئین اور دستور کے خلاف ہے۔ ہندوستان کے آئین میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ ایک سیکولر ملک ہے جبکہ موجودہ قانون کی وجہ سے مذہب شہریت کی بنیاد بنادی گئی ہے اور اس طرح یہ ملک کے سیکولر اقدار کی خلاف وزری ہے۔