‘ ہمیں بھی حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ کہاں کی مسلم امہ اور کہاں کا اسلامی بلاک۔ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہا ہے اور یہاں ہم امہ امہ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنا چاہیے
اسلام آباد (ایم این این )
سعودی عرب کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزراءخارجہ کی کونسل کا فوری طور پر اجلاس بلانے کی مخالفت پر پاکستان میں کئی حلقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاض اس بات کا خواہاں نہیں ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر او آئی سے کے وزراءخارجہ کا اجلاس بلایا جائے بلکہ وہ پاکستان کی خواہش کے برعکس اس حوالے سے دوسری تجاویز دیتا رہا ہے۔ وزرائ کونسل کے اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں، جو جدہ میں نو فروری کو ہوگا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں کہ اس کونسل کا کوئی سیشن بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر بھی ہو، جس کا پاکستان مطالبہ کرتا رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین نے اس سعودی رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاض سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الااقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے اس مسئلہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “وقت آ گیا ہے کہ ہم ریاض سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں کیونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بہت زیادہ بھارتی اثر و رسوخ میں ہیں اور وہ پاکستان کی حمایت نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان کو ان ممالک کی قدر کرنا چاہیے جو ہمارے لیے نقصان اٹھاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملائیشیا نے بھارت سے تعلقات خراب کر کے معاشی نقصان اٹھایا،لیکن وہ کشمیر سے اپنے موقف پر نہیں ہٹے۔ بھارت نے ان سے تیل لینا بند کیا لیکن پھر بھی انہوں نے پاکستان کی مدد کی۔ اسی طرح ترکی نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی۔ اور ہم ہیں کہ ہم نے سعودی عرب کے کہنے پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور اس کا صلہ ہمیں یہ ملا۔ اب ہمیں ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلامی تنظیم بنانی چاہیے، جو او آئی سی کی طرح غیر متحرک اور ناکارہ نہ ہو۔“
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سرد جنگ کی سیاست کے بر عکس اب مذہب سعودی پالیسی میں بہت اہم ہے اور اب اسے مسلم امہ کا کوئی خیال بھی نہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کہتے ہیں کہ یہ سعودی موقف ان کی بدلتی ہوئی ترجیحات کا عکاس ہے”سعودی عرب اب اسرائیل سے تعلقات بہتر کر رہا ہے اور خالصتاً معاشی مفادات کی بنیاد پر اپنے تعلقات دیگر ممالک سے استوار کر رہا ہے۔ بھارت سے بھی اس کے معاشی مفادات کی بنیاد پر تعلقات بن رہے ہیں۔ اس سعودی موقف سے پاکستان کو بہت مایوسی ہوئی ہے اور پاکستان کو اصولی طور پر چاہیے کہ وہ ترکی اور ملائشیا کی طرف سے نئی اسلامی تنظیم کی کوششوں کا ساتھ دے لیکن عملا ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اپنی معیشت کی وجہ سے ریاض پر بہت انحصار کرتا ہے، جو اسے ادھار تیل دیتا ہے اور وہاں پر لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔”
سیاست دان بھی اس موقف پر مایوس ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کہتے ہیں،” ہمیں بھی حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ کہاں کی مسلم امہ اور کہاں کا اسلامی بلاک۔ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہا ہے اور یہاں ہم امہ امہ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنا چاہیے اور سعودی اثر ورسوخ سے نکلنا چاہیے۔“