کیا واقعی ایوارڈمذاق بن کر رہ گئے ہیں؟

ڈاکٹر یامین انصاری
ملت ٹائمز
اعزازات کو مذاق بتانے والے انوپم کھیر کیسے یہ ثابت کریں گے کہ انھیں واقعی ان کی محنت کے عوض یہ ایوارڈ دیا گیا ہے
مختلف شعبہائے جات میں نمایاں کارکردگی انجام دینے والے افراد کو مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا جاتا رہا ہے۔ کئی بار جن اشخاص کو یہ ایوارڈ دئے جاتے ہیں وہ ان کی شخصیت اور ان کی خدمات کے سامنے بہت چھوٹے نظر آتے ہیں، اور کبھی یہی ایوارڈ ایسے لوگوں کو بھی مل جاتے ہیں، جو حقیقت میں ان کے اہل یا قابل بھی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ملنے والے اعزازات اور انعامات کے انتخاب پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ کبھی ایسے لوگ بھی سوال اٹھانے لگتے ہیں جنھیں ایوارڈ نہیں ملنے کا ملال یا محرومی کا احساس رہتا ہے۔ ایسے لوگ شاید خود کو اہل لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اہل مانتے ہیں۔ اورجب وہ کسی اعزاز سے محروم رہ جاتے ہیں تو ایوارڈ پر ہی سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جب یہی ایوارڈ انھیں مل جاتا ہے تو ان کے نزدیک وہی ایوارڈ اور اس کا انتخاب سب کچھ مناسب اور غیرجانبدارانہ نظر آنے لگتا ہے۔لہذا خاص طور پر سرکاری اعزازات پر سوالات پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں اور آج بھی اٹھ رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے خود مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا تھا ’ایوارڈز کی وجہ سے سر درد ہونے لگا ہے، لوگ پیچھے پڑ جاتے ہیں، پدم شری، پدم بھوشن ایوارڈ کی چاہت میں سفارش چاہتے ہیں۔ فلم اداکارہ آشا پاریکھ پدم بھوشن حاصل کرنے کی امید میں میرے گھر کی لفٹ خراب ہونے کے باوجود ۱۲؍ منزلیں چڑھ کر پہنچی تھیں، بڑا خراب لگا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے پدم شری ملا ہے، لیکن فلموں میں میری خدمات کودیکھتے ہوئے مجھے پدم بھوشن ملنا چاہئے۔‘‘اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ تو وہی جانیں۔لیکن جب بھی ایوارڈز دئے جاتے ہیں تو لوگ شک کی نظروں سے تو دیکھتے ہی ہیں۔
۲۵؍ جنوری کو پدم ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔ اس کے لئے ۱۱۲؍ شخصیات کو منتخب کیا گیا ۔ ۱۱۲؍ افراد کی فہرست میں مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے حامیوں یا بی جے پی کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والوں کی چھاپ صاف نظر آ رہی تھی۔اس کے ساتھ ہی بی جے پی حکومت کی اس فہرست میں صنعت کاروں پر بھی خاص عنایت کی گئی ہے۔ ۱۱۲؍ میں ۱۰ ؍ شخصیات کو پدم وبھوشن ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ ان میں بی جے پی سے قربت رکھنے والے معروف تمل اداکار رجنی کانت، مذہبی لیڈر شری شری روی شنکر، جموں وکشمیر کے سابق گورنر جگموہن، ریلائنس انڈسٹریز کے بانی آنجہانی دھیرو بھائی امبانی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح پدم بھوشن کے لئے ۱۹؍ ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ان میں مودی حکومت کی قدم قدم پر حمایت اور وکالت کرنے والے اداکار انوپم کھیر، یو پی اے حکومت میں ٹو جی گھپلے کا انکشاف کرنے والے سابق سی اے جی ونود رائے، مذہبی لیڈر سوامی دیانند سرسوتی، مشہور گلوکار اُدت نارائن کے علاوہ ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا، بیڈمنٹن اسٹار سائنا نہوال اور حفیظ کنٹریکٹر کے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ ۸۳؍ شخصیات کو پدم شری ایوارڈ کے لئے منتخب کیا ہے۔ ان میں حال ہی میں مودی سے ملاقات کرنے والے امریکہ میں مقیم سلمان امین خان، پورے زور شور سے پاکستانی دہشت گرد قصاب کا مقدمہ لڑنے والے سرکاری وکیل اجول نکم کے نام قابل ذکر ہیں۔لیکن ایوارڈز کی اس پوری فہرست میں جو سب سے زیادہ نام قابل ذکر اور موضوع بحث ہے وہ فلم اداکار انوپم کھیر کا ہے۔ جیسے ہی پدم ایوارڈ کے لئے ان کا نام سامنے آیا وہ سوشل میڈیا کے نشانے پر آ گئے۔ سوشل میڈیا پر ان سب واقعات کو یاد لایا گیا جو پچھلے کچھ عرصہ کے دوران انوپم کھیر کے حوالے سے پیش آئے ہیں۔ فیس بک اور ٹوئیٹراستعمال کرنے والوں نے گزشتہ دنوں ایوارڈ واپسی کے خلاف ان کے مارچ کو بھی یاد دلایا۔ پدم ایوارڈز کے اعلان کے فوراً بعد ہی ٹوئیٹر پر # PadmaAwards4Bhakts زبردست طریقے سے ٹرینڈکرنے لگا ۔ اس ٹرینڈ کے تحت پہلے چار گھنٹے کے اندر ہی ۱۵؍ ہزار سے زیادہ ٹوئیٹ کئے گئے۔حالانکہ کچھ لوگ اس کی مخالفت میں بھی سامنے آئے۔پھر بھی # PadmaAwards4Bhaktsٹرینڈ سب پر بھاری پڑا۔ اس کے تحت کسی نے انوپم کھیر کو نشانہ بنایا، تو کسی نے مدھور بھنڈارکرکو۔ کسی نے جگموہن کے انتخاب پر سوال اٹھائے تو کسی نے ونود رائے پر۔اسی طرح اجے دیوگن، ادت نارائن اور امبانی وغیرہ بھی نشانہ پر رہے۔ایک نے لکھا’’ ونود رائے کو پدم ایوارڈ تو ملا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹو جی گھپلے میں زیرو نیشنل لاس کی ہوا نکالنے کا بہترین کام کیا تھا۔‘‘ اسی طرح ایک نے ٹوئیٹ کیا’’ جگموہن کو کس لئے پدم ایوارڈ ملا ہے، کشمیری پنڈتوں کو باہر کرنے کے لئے؟‘‘ ایک نے لکھا ’’امبانی مودی کے قریبی رہے ہیں۔ اجے دیوگن بی جے پی کے لئے انتخابی مہم چلا چکے ہیں۔ اُدت نارائن نے ہی’اچھے دن آنے والے ہیں‘ گایا۔ ‘‘ ایک ٹوئیٹ ایسا بھی سامنے آیا جس میں عدم رواداری کے معاملے پر حکومت کی حمایت میں مدھور بھنڈارکر، مالنی اوستھی اور انوپم کھیر کے مارچ کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا،’’اس مارچ میں شامل تین لوگوں کو پدم ایوارڈ مل گئے‘‘۔ایک نے کہا ’’پدم ایوارڈ کی فہرست میں انوپم کھیر نے ٹاپ کیا ہے۔ ان کے ’مارچ فور ٹولرینس‘ میں کچھ عام لوگوں اور ایک خاتون صحافیتک کو بے عزت کیا گیا تھا۔ اب انہیں حکومت نے نوازا ہے۔ انوپم کھیر کو کیا ان کے ’ٹولرینس مارچ‘ کے لئے پدم ایوارڈ ملا ہے؟‘‘ اس طرح ۱۱۲؍ لوگوں کی فہرست میں انوپم کھیر سب سے زیادہ متنازع شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔حالانکہ انھوں نے خود کو پدم وبھوشن دئے جانے پرٹوئیٹ کیا اور کہا وہ انتہائی فخر محسوس کر رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا،’’آج ایک جلا وطن کشمیری پنڈت اور چھوٹے شہر کے محکمہ جنگلات کے کلرک کا بیٹا اپنی محنت سے پدم بھوشن حاصل کر رہا ہے، شکریہ میرے ملک‘‘۔ انوپم کھیر کا یہ لکھنا تھا کہ فوراً ہی ان کا ایک۶؍ سال پرانا ٹوئیٹ اچانک سوشل میڈیا میں وائرل ہو گیا۔۶؍ سال پہلے کئے گئے اس ٹوئیٹ میں انوپم کھیر نے پدم ایوارڈز کو مذاق بتایا تھا۔ انوپم کھیر نے اپنے اس ٹوئیٹ میں لکھا تھا، ’’ہمارے ملک میں ایوارڈ مذاق کا سسٹم بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی معتبریت باقی نہیں رہ گئی ہے، چاہیں پدم ایوارڈ ہوں یا فلم ایوارڈ‘‘ ۔ اگر مذاق کے پہلو کو چھوڑ دیا جائے تو اب انوپم کھیر یہ کیسے ثابت کریں گے کہ انھیں واقعی ان کی محنت کے عوض یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
یہ بات اتنی ہلکی بھی نہیں ہے کہ اسے صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ اعزازات اور انعامات کے انتخاب میں جانبداری ہوتی ہی رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں باوقار پدم ایوارڈس کی معتبریت پر اس حد تک جو سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، وہ قابل تشویش ہے۔ ماضی میں ایک دو نام تو ایسے شامل رہے ہیں جن کی وجہ سے حکومتوں پر جانبداری کا الزام لگا ہے، لیکن اتنی طویل فہرست شاید کبھی نہیں رہی ہوگی۔’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کا نعرہ لگانے والی، مگر اس کے بر عکس کام کرنے والی مودی حکومت میں دو سال کے اندر ہی ایسے انگنت واقعات رونما ہوئے ہیں، جن سے حکومت کی منشا پر سوالات اٹھنا فطری ہے۔ اس میں چاہے اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ ہو یا پھر دلتوں کے ساتھ نازیبا اور امتیازی سلوک کا معاملہ۔مودی حکومت کی ہندوتوا نوازی کی ایسی شبیہ ملک میں بن چکی ہے کہ اس سے باہر آنا شاید اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے عمل نہیں کیا جاتا۔اس کا اثر پدم ایوارڈ میں بھی صاف نظر آ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشہور تمل مصنف بی جے موہن، ’شیت کاری‘ تنظیم کے بانی شرد جوشی کے اہل خانہ اور صحافی ویریندر کپور نے پدم ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں جے موہن نے کہا کہ انھوں نے ہندو حامی تسلیم کر لئے جانے کے خدشہ کے پیش نظر یہ اعزاز لینے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ ان کے لئے یہ فخر کا موقع ہے۔ لیکن پھر بھی وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کی تحریروں کو غلط نظریہ سے دیکھے۔ وہ پہلے سے ہی سیاسی نظریہ کے سبب ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔اب ایسے ماحول اور حالات میں ٹی وی اور اخبارات سے لے کر سوشل میڈیا پر ان ایوارڈزپر بحث و مباحثہ ہونا فطری ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب کے ریز یڈینٹ ایڈیٹر ہیں)