احمد آباد میں جشن۔ دہلی میں دہشت گردی

پنجرا توڑ گروپ نے پریس ریلیز جاری کرکے پورے واقعہ کی مذمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ گروپ اکسا کر خودکیوں فرار ہوجاتاہے او رکیا اس گروپ کے بہکاوے میں آکر اتنا بڑا قدم اٹھانا درست ہے ۔یہ تحریر لکھے جانے تک حالا ت ساز گار نہیں ہیں
خبر در خبر (626)
شمس تبریز قاسمی
24 فروری2020 کی تاریخ یاد رکھی جائے گی ۔ احمد آباد میں وزیر اعظم نریند رمودی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا خیر مقدم کررہے تھے اور دہلی میںان کے بھکت دہشت گردی کررہے تھے ۔ خواتین پر پتھر ،لاٹھی ،ڈنڈا اور تلوار سے حملہ کرکے اپنی بہادری ثابت کررہے تھے ۔
صبح میں جو دہشت گردی اور غنڈہ گردی شروع ہوئی تھی اب تک وہ تھمی نہیں ہے ۔ رات کے ایک بج چکے ہیں لیکن دہلی میں بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی طرف سے مسلمانوں پر فائرنگ پتھراﺅ اور حملہ مسلسل جاری ہے ۔ مصطفی آباد ، موج پور ۔ گونڈہ چوک ۔ نور الہی ۔ بابر پور۔ چاند باغ او ر کردم پوری جیسے علاقوں میں غنڈہ گردی کا سلسلہ نہیں رکاہے ۔ ان علاقوں میں رہنے والے ملت ٹائمز کو فون کرکے بتارہے ہیں کہ گھروں کی چھت سے فائرنگ ہورہی ہے۔ جو غیر مسلم فیملی وہاں رہتی ہیں ان کے گھروں میں دہشت گرد اور شرپسند عناصر تلوار ۔ بندوق بارود اور بموں کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں اورحملہ کررے ہیں ۔ رات میں بھی دسیوں دکانوں اور مکانوں کو آگ لگادیاگیاہے ۔ ٹائر مارکیٹ کو آگ کے حوالے کردیاگیا ہے ۔ یہ مارکیٹ مسلمانوں کی تھی ۔ گھر کی چھتوں سے بھی فائرنگ ہورہی ہے ۔
24 فروری کی صبح میں سب سے پہلے چاند باغ کی مہیلاﺅں پر آر ایس ایس کے آتنکیوں نے پتھر ، لاٹھی اور ڈنڈا سے حملہ کیا ۔ بتایا جاتاہے کہ ان کے ہاتھ میں تلواریں بھی تھی ۔ اس حملہ میں سو سے زیادہ خواتین شدید زخمی ہوگئی ۔ دوپہر ایک بجے دونوں طر ف سے پتھراﺅ ہوا ۔ پٹرول پمپ ، دو اسکوٹی ۔ ٹرک اور بس کو آگ لگادیاگیا ۔ پھرتین بجے کے قریب چار طروف سے چاند باغ ۔ کردم پوری ۔ موج پور ۔ گونڈ ہ چوک اور نورالہی کا گھیراﺅ کرکے حملہ شروع کردیا ۔ میڈیا اہلکار کو بھی جانے نہیں دیاگیا ۔ شام پانچ بجے مصطفی آباد میں بھی بجرنگ دل کے لوگوں نے حملہ کردیا ۔ جہاں پتھراﺅ کے ساتھ فائرنگ کی ۔ اس حملہ میں اب تک پانچ لوگوں کی موت ہوچکی ہے جس میں ایک پولس اہلکار رتن لال ۔ جبکہ فرقان احمد سمیت چار شہری شامل ہیں ۔
ملت ٹائمز کی ٹیم نے بھی چاند باغ اور بھجن پورہ پہونچنے کی کوشش تھی لیکن بجرنگ دل کے غنڈوں نے ان پر حملہ کیا اورجانے نہیں دیا ۔ چاروں طرف سے مسلم علاقہ کو بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے گھیر رکھا تھا اور پتھروں سے حملہ کررہے تھے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ پولس بھی وہاں موجود تھی لیکن خاموش تماشائی بن کر ۔ ملت ٹائمز کے نمائندہ اسرا راحمد اور محمد معصوم پورے واقعہ کی رپوٹنگ کرنے کی کوشش تو انہیں مارنے کی دھمکی دی ۔ بس اور ٹرک جلانے کی انہوںنے ویڈیو بھی بنالی تھی لی جسے وہاں موجود شر پسند عناصر موبائل لیکر ڈیلیٹ کردیا ۔ کسے کو وہ ویڈیو بنانے نہیں دے رہے تھے ۔ اسرا ر سے ان دہشت گردوں نے یہاں تک کہاکہ پہلے ان مسلمانوں کو پتھر اٹھا کر مارو پھر تمہیں جانے دیں گے ۔ نہیں تو یہاں سے فورا بھاگ جاﺅ ۔ملت ٹائمز انگریزی کی سب ایڈیٹر شبنم کلیم یوسف بھی اسی علاقے میں موجود ہے جو مسلسل حالات سے باخبر کررہی ہے ۔
شمال مشرقی دہلی میں یہ فساد اور ہنگامہ کی شروعات 23 فروری کو ہی ہوگئی تھی اور اس کی شروعات کی تھی بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے ۔ پولس کی موجودگی میں شرپسندوں کے ایک گروہ کے ساتھ اس نے مظاہرین پر پتھراﺅ کیاتھا ۔ نفرت انگیز نعرہ لگایاتھاور پھر پولس کی موجودگی میں اشتعال انگیز بیان دیاتھا ۔ اب تک اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور آج مسلمانوں پر منصوبہ بند طریقے سے حملہ ہوگیا ۔23 فروری کو بھیم آر می نے بھارت بند کی کال دی تھی ۔ اس مہم میں مسلمانوں نے بھر پور چند شیکھر آزاد کا ساتھ دیا اور کئی علاقوں میں راستہ بند کردیا ۔ دہلی کے جعفر آباد ،مصفطی آباد میں بھی سی اے اے مخالفین نے بھارت بند مہم کے تحت راستہ بند کردیا ۔ جعفرآباد راستہ ابھی بھی بند ہے تاہم مصطفی آباد میں رات کو گیارہ بجے وہاں کے لوگوں نے راستہ خالی کرکے واپس وہاں لوٹ گئے جہاں پہلے سے احتجاج ہورہاتھا ۔ مالویہ نگر میں بھی بھارت بند کے مظاہرین نے ہائی وے پر نکل کر احتجاج کیا تو پولس نے لاٹھی چار کردیا اور آنسوگیس کا استعمال کیا ۔ جعفر آباد ، مصطفی آباد اور مالویہ نگر میں پنجر ا توڑ گروپ نے سڑک جام کرنے کیلئے آماد ہ کیا ۔ چند شیکھر آزاد کی مہم کو آگے بڑھانے کیلئے انہوںنے راستہ بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عملی طو رپر دونوں گروپ میں سے کسی کا انہیں ساتھ نہیں ملا جب سڑ ک بند کی گئی تو یہ دونوں گروپ غائب ہوگیا ۔ پنجرا توڑ گروپ نے پریس ریلیز جاری کرکے پورے واقعہ کی مذمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ گروپ اکسا کر خودکیوں فرار ہوجاتاہے او رکیا اس گروپ کے بہکاوے میں آکر اتنا بڑا قدم اٹھانا درست ہے ۔یہ تحریر لکھے جانے تک حالا ت ساز گار نہیں ہیں ۔

SHARE