مشرّف عالم ذوقی
جس بات کو لے کر سارا ہندوستان پریشان ہے، اور جس بات کو لے کر دلی تین دنوں تک جلتی سلگتی رہی ، اگر اس سے وابستہ سوال کے جواب میں مضحکہ خیز جواب سامنے اے تو یہ فکر لازمی کہ اس وقت ملک میں دو ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے خود کو خدا سمجھ رکھا ہے، جنہیں کسی شناخت یا شہریت کی ضرورت نہیں، مگر ضرورت ایک سو پچیس کروڑ عوام کو ہے، وزیر اعظم نریندر مودی کی شہریت کے بارے میں سوال کرنے والے ایک شہری کی طرف سے دائر آر ٹی آئی کے جواب میں پی ایم او نے جواب دیا وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس شہریت کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیوں کہ پیدائشی طور پر وہ ایک ہندوستانی شہری ہے۔
پی ایم پیدائشی طور پر ہندوستانی شہری ہیں، امیت شاہ کے لئے بھی یہی جواب آئے گا کاغذ کسی کے پاس نہیں۔
آر ٹی آئی کے جواب میں پی ایم او کے سکریٹری پروین کمار نے لکھا، وزیر اعظم شری نریندر مودی شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 3 کے تحت پیدائشی طور پر ہندوستان کے شہری ہیں اور اس طرح کہ ان کے شہریت ہونے کے سوال کے طور پر جو سرٹیفیکیشن رجسٹریشن کے ذریعہ شہریت کے لئے ہے وہ موجود نہیں ہیں۔یعنی پی ایم کے پاس شہری ہونے کے کاغذات موجود نہیں، کل یہ بھی کہا جائے گا کہ غیر مسلموں کو بھی ، کسی دستاویز کو دکھانے کی ضرورت نہیں، صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ملک سے مسلمانوں کو مکتی دینے کے لئے ہے، دلی کے دہشت گرد کو وائی سیکورٹی دی جاتی ہے، کیا حکومت مسلمانوں سے یہ سمجھنے کی کوشش کرے گی کہ پچیس کروڑ اقلیت اپنے موت کے فرمان پر کیوں دستخط کریں ؟ جبکہ مسلمان جانتے ہیں کہ این پی آر اور سی اے اے کے بعد ان کی زندگی خطرے میں ہوگی۔ مغربی بنگال میں بھی گولی مارو کے نعرے گونجے، اب یہ نعرے عام ہو چکے ہیں … سوشل ویب سائٹ پر مسلمانوں کی مخالفت میں باضابطہ مہم شروع کی گیی ہے۔ معاشی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور بنانے کی سازش اپنی تمام حدیں تجاوز کر چکی ہیں۔ یہ سوچنا تو ہوگا کہ آگے کیا ہونے والا ہے …
ہم آہستہ آہستہ موت کے گلیشئر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فرض کیجئے: ہم میں سے کچھ لوگ اچانک غائب ہوجائیں۔ پھر آہستہ آہستہ اچانک گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگے …۔ فرض کیجئے، ایک دن محسوس ہو کہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم پچیس کروڑ آبادی میں سے پندرہ کروڑ رہ گئے ہیں۔
اور فرض کیجئے کہ پھر اس بات کا بھی احساس ہو کہ یہ آبادی برف کی بڑی بڑی سلیوں کے درمیان بدبودار لاش کی طرح ہے جس کے اندر زندگی کی کوئی رمق، کوئی نشانی باقی نہیں۔
اور فرض کیجئے، ایک ایسا منظر سامنے ہو کہ یہ کم ہوتی آبادی کسی لاش کی طرح، ایک جگہ جمع ہو کر ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے موت کی دعا مانگ رہی ہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ودرنگ ہائٹس میں، ہیٹھ کلف کھڑکی کے پاس، سہما ہوا اپنی محبوبہ کی روح کو آواز دیتا ہے۔فرض کیجئے ..یہ آپ اور ہم سب ہوں اور ہمیں نازیوں کے گیس چمبر میں ڈال دیا گیا ہو … مرنے کے لئے …
الگزنڈر سولسنٹین کا ناول، گلاگ آرکپلا گو کا ایک منظر ہے۔ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جارہا ہو تا ہے۔ ایک دوسرا شخص آواز دیتا ہے۔ اور اس سے کہتا ہے کہ اسے بس دو منٹ چاہیے۔ بیوی کے ساتھ جو شخص ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ دومنٹ، 20 برس بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ دو منٹ کے بعد اسے اس دنیا سے دور کسی موت کے سیارے میں بھیج دیا جائے — کیونکہ اسے حکومت کے خلاف بولنے کے جرم میں سزا سنائی جاچکی ہے۔
پاکستان میں جب ضیاءالحق کی حکومت تھی تو پاکستانی افسانہ نگار نعیم آروی نے اپنے افسانہ ” ہجرتوں کی مسافت ” میں کچھ اسی طرح کی وحشت اور کرب کا اظہار کیا تھا۔ سچ پر پابندی تھی۔ بولنا منع تھا۔
ہندستان میں اندرا گاندھی نے١میں ایمرجنسی لگائی تو خوف کا ماحول تھا لیکن احتجاج کرنے والے بھی تھے اور احتجاج کرنے والوں میں میڈیا کا بڑا رول تھا۔
اب میڈیا کہاں ہے ؟
جوحکومت کے ساتھ نہیں وہ مجرم ہے ۔
آپ آواز اٹھاتے ہیں تو آپ آپ مجرم ہیں۔
آپ مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں تو آپ مجرم ہیں۔
آپ اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو آپ مجرم ہیں۔
آپ مودی کے ساتھ نہیں تو آپ گنہگار اور مجرم دونوں ہیں۔
اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں میڈیا کا احتجاج جاری تھا۔
مودی کے غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں ان ڈی ٹی وی کو چھوڑ دیا جائے تو میڈیا ہے ہی نہیں- میڈیا نفرت کی زبان بولتا ہے۔ جو سہارے تھے ، گونگے ہو گئے، سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے گھبراتی ہیں، کیجریوال نے بھی ثابت کیا کہ مسلمان محظ ووٹ بینک ہیں۔
ایمرجنسی لگ چکی ہے ۔ ہم نجیب کی طرح آہستہ آہستہ غائب ہورہے ہیں۔ کل کسی ننگی پہاڑی پر بلا کر ہمیں بھی ہلاک کیا سکتا ہے۔ اس وقت کسی کاغذ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
سامنے موت کا گلیشئر کھلا ہے۔ابھی نہیں جاگے تو پھر کبھی نہیں جاگیں گے۔
موت پہلے سے کہیں زیادہ قریب آچکی ہے۔
ہٹلر سے ایدی امین تک ظالم و جابر حکمرانوں کی تفصیلات سامنے ہیں … یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خوف کی حکومت قایم کرنے کے لئے ہر اصول ہر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھدیا … ہر ناجایز کو جایز بنا دیا … آج ہم میں سے فاروق ، کفیل نجیب گم ہو ہیں … کل ہزاروں گم ہونگے … آج دلی جلی ہے ممکن ہے کل ہندوستان بھر میں قیامت پھوٹ پڑے … کل ہزاروں پر آفت آئے گی اور کوئی آواز نہیں بلند ہوگی … ظلم کی طاقت اور بربریت کی چھاؤں میں آواز بلند کرنے والے بھی خوف زدہ اپنے گھروں میں بند ہوں گے کہ کوئی نا گہانی حادثہ انکے ساتھ نہ پیش آ جائے … آج اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بندش لگایی جا رہی ہے۔ جبکہ ملک میں آتش بیانی اور زہر پھیلانے والی زعفرانی جماعتوں پر کوئی پابندی نہیں —
وقت ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں .. لاکھوں ..کروڑوں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں ..لیکن کیا یہ ہوگا ؟ کیسے ہوگا ؟ ہم جسے جمہور پسند شہری کہتے ہیں ، وہ کتنی تعداد میں ہیں ؟ کیا وہ سارے اٹھ کھڑے ہونگے ؟ کیا دلت لیڈر راج بھر ، ادت راج ، پرکاش امبیڈکر ، چندر شیکھر راؤن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں ؟
تاریخ کے خوفزدہ کرنے والے سامنے ہیں … ہم کم ہونے لگیں گے .. ہماری گمشدگی بڑھنے لگےگی …ہم بے صوت و صدا ہوں گے … ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں …
شاطر سیاست نے تعلیم کے دروازے بند کر دیے اور جہالت کا ہر دروازہ کھول دیا، ہم نہ بھولیں کہ ایک حل آپس کی طاقت بھی ہے، یہ خوفزدہ ہونے کا وقت نہیں . زعفرانی طاقتوں کے سامنے چیلنج بن کر ابھرنا ہوگا . ایک تصویر اس شخص کی تھی جو گجرات دنگوں میں بھیڑ کو دیکھ کر خوفزدہ تھا . ایک تصویر دلی کی ہے جہاں ایک شخص سجدے میں گرا ہے اور شیطانی طاقتیں اسے روند رہی ہیں، گجرات اور دلی میں فرق اتنا ہے کہ دلی کو ہندوستان کہا جاتا ہے، دلی ایک علامت ہے کہ پاگل بھیڑ ایک دن ہندوستان کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے۔
ملک اور آیین کے تحفظ کے لئے اٹھیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں، کیا یہ ممکن ہے ؟