(شاہین باغ مظاہرہ سو دن مکمل ہونے پر خاص رپورٹ )
عابد انور
قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین کو آج (یعنی 23 مارچ کو) سو دن پورے ہوگئے۔ اس وقت شاہین باغ خواتین مظاہرین کورنا اور دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ مظاہرے میں شامل ہیں اور تند و گرم ہوا کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ کل مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کے لئے پیٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس سے آگ لگ گئی اور اسے بجھادیا گیا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اسی کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گیٹ نمبر پر سات پر گولی چلائی گئی۔ مظاہرے کے مخالفین اور ہندو انتہا پسند اس مظاہرے کو ہر حال میں ختم کرانا چاہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ کچھ مظاہرین کے نظریے میں تبدیلی آئی ہے وہ مظاہرہ ختم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اکثریت بے خوف اور بغیر نتیجے کے مظاہرہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور وہ چٹانوں کی طرح حوصلہ رکھتی ہیں۔ خاتون مظاہرین نے کہاکہ وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں سی اے اے شہریت دینے کا قانون ہے شہریت لینے کا نہیں ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہیں کہ اس قانون کی کیا ضرورت تھی جب کہ شہریت تو پہلے سے دی جارہی تھی۔ حکومت کا مقصدمسلم ووٹروں کو کم کرنا ہے تاکہ آگے آنے والے انتخاب کو آسانی سے جیت سکیں۔ اس لئے یہ قانون لایا گیا۔ شاہین باغ سمیت پورے ملک کے شاہین باغ خواتین مظاہرہ کے پرامن ہونے کی بات کرتے ہوئے کہاکہ ہم پورے ملک میں خواتین 90 دن سے مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن کہیں کچھ نہیں ہوا لیکن وہ (کپل مشرا) ایک دن مظاہرہ کیا تو دہلی جل گئی اور 53 سے زائد جانیں چلی گئیں۔
خواتین مظاہرے کو کھٹے میٹھے، تلخ و شیریں،دھمکی، سپریم کورٹ کے مذاکرات کی آمد، شمال مشرقی دہلی میں ہولناک فساد کے ساتھ آج سو دن مکمل ہوگئے ہیں اس دوران یہاں کی خاتون مظاہرین کو اس مظاہرہ کو جاری رکھنے کے لئے سخت آزمائشوں، امتحان، فائرنگ، شدت پسند تنظیموں کے حملے، پولیس کا دھرنا ختم کرنے کا دباؤ، کرونا وائرس، دفعہ 144، طرح طرح کے طعنوں کا سامنا، گالی گلوج، بریانی ختم دھرنا ختم جیسے جھوٹے پروپیگنڈے،دھرنا ختم کروانے کی دھمکی،پانچ سو روپے میں بکنے والی جیسے گھٹیا پروپیگنڈہ، مشترکہ تہذیب و وراثت و صلح کل کاپیغام دینے، جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانے کے لئے سخت محنت کرنی پڑی اور وہ ہر امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں جس کا اثر نہ صرف حکومت وقت پڑا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس احتجاج کو حمایت حاصل ہوئی ہے اور لندن وہاں کے رکن پارلیمنٹ نے نہ صرف شاہین باغ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مارچ نکالا بلکہ لانگ لائیو شاہین جیسے نعرے بھی لگائے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے اس کے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان کا سامنا کیا اور اس کا دنداں شکن جواب دیا۔ فسادات متاثرین کے لئے کھانے پینے کی اشیاء بھی یہاں سے بھیجوایا۔ سپریم کورٹ کے مذاکرات کا ر کوابھی اپنی دلیل سے مطمئن کیا اور ان کو کہنے سے مجبور ہونا پڑا کہ شاہین مظاہرہ جاری رہنا چاہئے۔ وزیر داخلہ سے ملنے کے لئے مارچ نکالنے کی کوشش کی۔ اس طرح پرامن مظاہرہ کیا کہ پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس مظاہرے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مجبور ہونا پڑا۔
گزشتہ 15دسمبر سے سریتاوہار کالند کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی اور قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔اس وقت تقریباً تین سو سے زائد مقامات پر خواتین کا دن رات کا مظاہرہ جاری ہے۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین پر جس طرح حملے کئے گئے اسی طرح خواتین اس کا مدلل اور مہذب انداز میں جواب دیا اور اپنے مظاہرے کو مخالفین کی سوچ سے اپنی سوچ بڑی کرتی گئیں، ملک کا غدار کہا گیا تو وہاں انڈیا گیٹ اور ہندوستان کا نقشہ بناکر پیش کردیا گیا، پڑھنے کے لئے یہاں فاطمہ شیخ ساوتری بائی پھولے لائبریری بھی تھی جو ’ کورورنا ‘ کی وجہ سے ہٹادی گئی ہے۔ جہاں وہاں آزادی کے نعرے لگے، آئین بچاؤ کے نعرے لگے، جے بھیم کے نعرے لگے وہیں جے شری رام کے نعرے بھی لگے، بھارت ماتا کی جے کے بھی نعرے لگے، ہولیکا کابھی دہن (جلایا) کیا گیا اور مسلم خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے۔ جب اس مظاہرہ پر مسلم مظاہرہ ہونے کا الزام لگا تو اس مظاہرہ کو پورے ملک تمام قوم کا مظاہرہ بنانے کے لئے مظاہرہ گاہ میں ایک ساتھ ہون ہوا، سکھ بھائیوں نے گروگرونت کا پاٹھ پڑھا تو عیسائی بھائیوں نے بائبل پڑھا اور مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت ایک ہی اسٹیج پر کی۔ مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خواتین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہورہا ہے اوران کی حمایت میں مظاہرہ کئے جارہے ہیں۔ شروع سے ہی شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں ہند، مسلم، سکھ، عیسائی کی شمولیت رہی ہے اور پورے ملک سے تمام مذاہب کے لوگ اس مظاہرے کے ساتھ یکجہتی اور اس کی حمایت کرنے کے لئے یہاں آتے رہے ہیں۔ فرانس سمیت مختلف ممالک کے لوگ یہاں اظہارِ یکجہتی کے لئے آچکے ہیں۔
مظاہرہ کو بدنام کرنے کے لئے کئی ٹی وی چینل کے صحافی آئے، کسی وزرائے نے اسے توہین باغ قرار دیا۔ فسطائی طاقتوں نے کچھ لڑکے اور لڑکیوں کو برقعہ پہناکر بھیجا تاکہ مظاہرہ کو منتشر اور بدنام کیا جاسکے لیکن خاتون مظاہرین ان کو پکڑکر کسی کو کوئی تکلیف پہنچائے بغیر پولیس کے حوالے کردیا۔ کئی بار ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن خواتین کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پنجاب سے سکھوں دستہ مسلسل آتا رہا۔ آنے والوں کے سابق ورزرائے، سابق اسپیکر، سابق اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، سماجی کارکن اور عام لوگ تھے۔ سردار ڈی ایس بندرا لنگر چلارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک گرودا لنگر چل رہا ہے۔جس میں تین ہزار لوگ روزانہ کھانا چاہتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہا یہ سامان اور پیسہ کہاں سے آتا ہے تو انہوں نے کہاکہ یہاں کے عوام دے جاتے ہیں۔ یہاں ہندو بھائی دے جاتے ہیں، سکھ بھائی دیتے ہیں، عیسائی بھی دیتے ہیں اور مسلمان بھی سامان رکھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے تعاون لنگر مسلسل چل رہا ہے۔
سو دن کے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ایک 20 دن کے بچہ سے لیکر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ سکھ سماج کے ساتھ دلت سماج کی خواتین اور مرد بھی جوش و خروش کے ساتھ اس مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ آٹھوں ریاستوں کی خواتین ایک وفد کی شکل میں آئیں اور کہا کہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے اتحاد و سالمیت کی ہے جسے ہم کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ خاتون مظاہرین میں شامل ایک ہندو خاتون رینو کوشک نے کہاکہ سوشل میڈیا پر شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بات دیکھ کر مظاہرہ میں شامل ہوئی ہوں اور میں ان خواتین کے ساتھ رات میں بھی یہیں رہتی ہوں۔انہوں نے کہاکہ میں اس لئے یہاں رہتی ہوں کہ ان خواتین کی مانگ جائز ہے اور اسی کی حمایت کرنے کیلئے یہاں بیٹھی ہوں تاکہ کوئی یہ نہ سکے یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے ہمارے ملک کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور ہندوستان کی پہنچان ختم ہوجائے گی۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ اور بریانی کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تفسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کردیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ’سیکولر‘ چائے ملتی ہے۔جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے۔
یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے۔ کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ’نو کیش نو اکاؤنٹ‘،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں اور باجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں کینڈل جلاکر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہاں کی آس پاس کی دوکانیں گزشتہ سو دن سے بند ہیں، جس کی وجہ سے دوکانداروں کوبھی نقصان اور پریشانی ہے۔ یہا ں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جو مختلف ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماری کا علاج اور طبیعت خراب کرنے والوں کو دوائی دیتے ہیں۔ اس مظاہرہ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں۔گرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے آہی جاتا ہے۔ ان میں سیاست داں سماجی کارکن، فلمی ہستیاں، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی، اور سماجی ہستی شامل ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ مودی حکومت ملک کی مشترکہ ورثے اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ملک کے عوام ان کی اس منشا کو پورا ہونے نہیں دیں گے۔مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہاکہ شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اور کامیابی آپ کی قدم چومے گی۔مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش نے کہاکہ آج ساری انسانی برادری کا متحد ہوکر ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنا اور مظلوموں کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
اس مظاہرہ کے انتظام و انصرام سے وابستہ محمد رفیع اور صائمہ خاں، نصرت آراء، ملکہ خاں،شیزہ، کنیز فاطمہ اور شاہین کوثر نے بتایا کہ اس مظاہرہ کی خاص کی بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی تنظیم کے ہے اور نہ ہی اس مظاہرہ میں اب تک کسی کو بلایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا کوئی منتظم ہے بس ہم لوگ یہاں کا تھوڑا بہت انتظام دیکھ لیتے ہیں۔ شاہین باغ میں خاتون مظاہرین نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر مختلف اسٹال لگائے جس میں کھانے کی چیزوں سمیت دو پٹے، اسکارف اور رومال اور دیگر کپڑے تھے۔ رومال پر ’میں شاہین باغ ہوں‘ لکھا تھا۔ لگائے گئے اسٹالوں پر اشیاء کی فروخت سے جو آمدنی ہوئی اس سے دہلی کے فسادزدگان کی مدد کی گئی۔پچاس روپے کی چیزوں کو دو سو روپے میں خریدا تاکہ زیادہ زیادہ پیسے فسادزدگاہ کے لئے اکٹھے ہوسکیں۔ اس سے قبل شاہین باغ خاتون مظاہرین سے دہلی کے فساد زدگان کے لئے یہاں سے کئی ٹرک اشیاء خوردنی بھیج چکی ہیں۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ہر آدمی چھپ کر کام کرنا چاہتا ہے، صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہے، صبح صبح یہاں صفائی ستھرائی کرتے ہوئے اعلی تعلیم یافتہ، ڈاکٹرس انجینئرس مل جائیں گے۔ کیا پڑھے لکھے، کیا جاہل، سب کی اہمیت اپنی جگہ الگ الگ ہے۔ تمام لوگ اپنی حیثیت کے مطابق مظاہرہ کو کامیاب بنانے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں نے خواتین کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے اور رات و دن پہرہ دیتے ہیں۔ طویل عرصہ تک مظاہرہ چلنے کی وجہ سے تھوڑی بہت نااتفاقی ہوجاتی ہے لیکن چند لمحوں میں سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ہر طرح کی پریشانیوں، چیلنجوں، دھمکیوں، دباؤ اور صعوبتوں کے باوجود شاہین باغ رواں دواں ہے۔