وبا کے دنوں میں رامائن 

مشرف عالم ذوقی

پرکاش جاورکڑ نے راماین کے شروع ہونے کی اطلاعدی ہے، کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک عام خبر ہو سکتی ہے، لیکن نفرت اور وبا کے دنوں میں اس خبر کی خاص حیثیت ہے، راما نند ساگر سیکولر ذہن کے مالک تھے۔ ترقی پسند تحریک چلی تو انکے ناول اور انسان مر گیا کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا – بھاگ ان بردہ فروشوں سے جیسی خوبصورت کہانیوں میں بھی ، ان کے اندر کا ترقی پسند انسان زندہ تھا، یہی راما نند ساگر فلموں میں اہے تو اپنی کمرشیل فلموں کو ادب سے دور رکھا، یہ ضروری بھی تھا، کیونکہ فلمی دنیا میں نہ پریم چند چلے ،نہ منٹو ،کرشن چندر یا بیدی – بیدی صاحب کے بیٹے نے کمرشیل فلموں کا رخ کیا تو تھوڑی بہت کمائی ہو گئی، فلموں میں آنے کے بعد ساگر ادب سے دور ہو گئے … جب ہندوستان میں فرقہ پرستی کا رتھ تیز تیز دوڑتا ہوا ، صدیوں پرانی ہندو مسلم دوستی کو روندنے کی کوشش کر رہا تھا ، ساگر ایک نیا روپ لے کر آ گئے –ممکن ہے ، کچھ لوگ اس بات کی مثال دیں کہ تقسیم کا حادثہ پہلے ہی اس ملت کو زخمی کر چکا تھا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، فسادات ہوتے رہے یہ سچ ہے تقسیم کا اثر کافی دنوں تک رہا ،یہ بھی سچ ہے .لیکن ایک سچ اور بھی ہے کہ پرانی تہذیب زندہ تھی – اور فسادات کے باوجود دلوں کا معاملہ مختلف تھا، ہندو اور مسلم بھایی بھایی کی طرح رہتے تھے بلکہ اب بھی رہتے ہیں … مذموم کوششوں کے باوجود حقیقت یہی ہے، اس سے انکار ممکن نہیں — بھر کیف ساگر صاحب اسی زمانے میں رامائن ٹی وی سیریل لے کر آ گئے .رامائن کے آنے کی ٹائمنگ غلط تھی، اس کا فائدہ بھاجپا اور آر ایس ایس نے اٹھایا .اسکے بعد ساگر پوری طرح بھگوا رنگ میں نظر اہے، یہ بھی ایک انسان کی موت تھی … بابری مسجد شہادت میں بھی رامائن کا کرتدار حاوی رہا، ہندوتو کو سب سے زیادہ فروغ کی وجہ یہ سیریل ثابت ہوا۔

آجکل ہندوتو پر مبنی فلموں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ بھنسالی نے جب باجی راو پیشوا اور پدماوت بناییتو مجھے راما ساگر کی یاد آئی، یہ فلمیں بھی آر ایس ایس کے مینیفیسٹو کو سپورٹ کرتی ہیں، اس فلم کے کئی مناظر ایسے ہیں جہاں ہندوتو کے فلسفے کو اہمیت دی گی، پیشوا فلم کے پروموشن میں یہ بات کہی گئی کہ کیسے پیشوا نے مغلوں کو مات دی، راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں کی کہانیوں میں شکست اور فتح کے سلسلے ہمیشہ چلے کبھی کسی کی فتح کسی کی شکست ..لیکن رامائن نے جہاں ہندو میتھولوجی کے سہارے غلط ٹائمنگ کے ساتھ ہندتو کے جذبے کو بیدار کرنے کا کام کیا، بھنسالی جیسے فلمکار اسی راستے سے ہندوتو پر مبنی فلموں کو لے کر آ گئے اور آر ایس ایس نے آسانی سے ان کہانیوں کو پروموٹ کیا مرنے سے قبل تک ساگر باضابطہ رامائن کے، نئے بالمیکی اوتار میں نظر آئے، اور آخری وقت تک اسی اوتار میں رہے۔

ایک کمزور طبقہ جس میں انوراگ کشیپ جیسے ڈائریکٹر پروڈیوسر ہیں ، یہ لوگ آواز تو اٹھاتے ہیں، پھر خائف ہو کر معافی بھی مانگ لیتے ہیں، فلم سنسر بورڈ جیسی تمام جگہوں پر چن چن کر بھگوا بریگیڈ کو رکھا گیا ہے ، جن کی دلیلوں کے آگے ہر دلیل کمزور اور ناکام … انوپم کھیر، پریش راول ،کرن کھیر ، جیسے اداکار جو کل تک ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصّہ تھے ، جو فلم کی کہانی میں ہمارے لئے ، انسانیت کی بقا کے لئے آواز بلند کرتے تھے ، آج آر ایس ایس کے نظام کا حصّہ ہیں؟ کیا اس نظام میں اردہ ستیہ ،آکروش ، ودنیسس ڈے ، بلیک فرایڈے ،پرجانیا جیسی فلموں کی نمائش ممکن ہے ؟ سوال ہی نہیں اٹھتا، جب کورونا وائرس عذاب کی شکل میں نازل ہوا ہے ، رامائن کا پروموشن سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ بھی ہو سکتا ہے، بھنسالی کی فلم پدماوت کو یاد کیجئے، پدماوت کا پہلا منظر ہی بھنسالی اور آر ایس ایس کے نظریہ کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے، اداکار رضا مراد پوچھتے ہیں … علاء الدین کہاں ہے ؟ ایک خدمت گار اندر جاتا ہے تو علا الدین درندگی کے ساتھ ایک لڑکی کی عصمت لوٹتا ہوا نظر آتا ہے .خدمتگار کہتا ہے .. تمہاری شادی ہے .. آج تو یہ کام نہ کرو … سوال ہے ،بھنسالی نے تاریخ کی کس کتاب سے استفادہ کیا ؟ منگولوں کی دہشت گردی سے ہندوستان کا تحفظ کرنے والے خلجی کا یہ فرضی چہرہ دکھانے کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟تاریخ کی کتابیں راجپوت مہارا جاؤں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں جب وہ مغلوں کی خوشامد میں اپنی لڑکیاں انھیں تحفے میں دیا کرتے تھے، دراصل خلجی کو بدنام کرنے کا منصوبہ نہیں تھا، مسلمانوں کی بد نامی کے سہارے ، اکثریتی طبقہ میں زہر گھولنا مقصد تھا، بھنسالی اس کھیل میں شامل تھے، یہاں علا الدین، علا الدین نہیں ہے، ہندوستانی مسلمانوں کا ترجمان ہے، اکثریتی طبقہ اس کردار میں علا الدین کی جگہ عام مسلمانوں کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ یہ سلسلہ اس شخص نے شروع کیا جس کا نام راما نند ساگر تھا، جو اردو کا ادیب بھی تھا۔

مجھے جارج آرویل کے ناول ۱۹۸۴ کی یاد آتی ہے، جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں اس کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے سوچئے۔ خاص طور پر ، اس کے قوانین آپ کو کیا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟ ہمارے معاشرے میں، ایسے قوانین موجود ہیں جن میں قتل سے لیکر چوری تک، ٹریفک کے نمونوں تک ہر چیز پر حکمرانی کی جاتی ہے، اور ہمارا معاشرہ اسی طرح کام کرتا ہے۔ لیکن اگر وہاں کوئی تحریری قوانین نہ ہوتے۔ ان کی جگہ کیا ہوسکتی ہے؟ جارج آرویل نے اپنے ناول 1984 میں اس خیال کو پیش کیا ہے . اورویل نے ایک ڈیسٹوپیئن، یا ایک ناپسندیدہ یا خوفناک معاشرے کی تشکیل کی ہے ، جہاں کوئی تحریری قوانین موجود نہیں ہیں ، لیکن ہر کسی کو تھاٹ پولیس کے ذریعہ سخت کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ معاشرے کی اپنی سرکاری ہے، انہیں تھنک پول کہتے ہیں، اورویل کے معاشرے میں بھی، سوچنے کا جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔ لیکن تھنک پول کو کسی اصل ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ چہرے کا اظہار بھی ثبوت کے طور پر کام کرتا ہے: ‘جب آپ کسی عوامی جگہ پر یا ٹیلی سکرین کی حدود میں ہوتے ہیں تو خیالات کا بھٹکنا بھی جرم ہوتا ہے ۔۔ ‘ 1984 میں ، تھنک پول کے پاس بنیادی طور پر حتمی گرفتاری اور سزا دینے کی طاقت ہے ، اور ثبوت وہ چیز نہیں ہے جس کی انہیں پرواہ ہے۔

اب اس روشنی میں ۱۹۸۰ کے بعد رتھ یاتراؤں کو دیکھئے تو سارا ماجرا سمجھ میں آ جاتا ہے، ہندوتو کے انجکشن لگنے شروع ہو گئے تھے، رامائن اسی حصّے کی ایک مضبوط کڑی تھا، اس نے ہندوتو کی وہ لیبارٹری تخلیق کر دی ، جس کی آر ایس ایس کو ضرورت تھی .۲۰۱۹ کے بعد حکمت منصوبہ بند طریقے سے رامائن کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے . ایک ڈیسٹوپیئن ، یا ایک ناپسندیدہ یا خوفناک معاشرہ میں آپ جینے کے لئے مجبور کی گئیں، یہاں بھی تھنک پول ہے جو آپ پر نظر رکھ رہی ہے اور اس تھنک پول کو دلیلوں کی ضرورت نہیں ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں