مفتی احمد نادر القاسمی
میں اس تحریر کے ذریعہ اپنے دوستوں، اردو ، ہندی انگلش زبان میں تقریری اور تحریر خدمات انجام دینے اور اللہ کی، رسولﷺ کی ، اور دین و شریعت کی شفاف وبے لاگ باتیں دنیا تک اپنی صلاحیت اور بساط کے مطابق پہونچا رہے ہیں ۔۔ الھم زدفزد ۔۔۔ ان کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں ، اور جو ہمارے معاصر اہل علم ہیں وہ اس میں شامل ہیں۔جوحضرات علماء اور بزرگ حضرات ہیں۔ ان کو مخاطب کرنا بے ادبی ہے ۔ وہ اپنے اپنے طور پر اور اپنے نور بصیرت سے خود اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ امت کو اس وقت کس دوا کی ضرورت ہے اور کیا پیغام دینا چاہیے۔ اللہ کو جو کام امت کی رہنمائی اور دین کی خدمت اور اصلاح و تربیت کا لینا ہے ۔ وہ ان سے لے لے گا ۔ ہم نئی نسل کے لوگوں کے لئے ۔ موجودہ حالات سمجھنے کے بھی ہیں فکری اور ذہنی تربیت کے بھی ہیں اور ان حقیقی ذمہ داریوں تک رسائی حاصل کرنے ہیں جو ہمیں اپنے مقام و منصب پر رہ کر نام و نمود اور عہد جدید کی معاصرانہ بلاؤں سے بچتے ہوئے انجام دینا ہے ۔ اللہ تعالی مستقبل کی راہیں ہمارے لئے روشن کرے۔ آمین
اس وقت جبکہ کم بیش آدھی سے زیادہ دنیا اپنے دائرۂ زندگی سے محدود ہوکر گھروں میں قید ہے ۔ اس قید وبند اور لاک ڈاؤن کے جاری ایام نے دنیا کی ہر قوم کو دنیا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ہے ۔ انسانوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جو پہلے ہی کی طرح بس یہ سوچ رہا ہے کہ ابھی لاک ڈاؤن ہے ۔ جب ختم ہوگا دکانیں کھل جائیں گی ۔ دھیرے دھیرے دنیا کی زندگی اپنی پرانی رفتار ڈھنگی و بے ڈھنگی پہ آجائے گی ، کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اچھا ہے ۔ تھوڑا دنیا کو صوتی آلودگی اور گاڑیوں کے چلنے سے جو پالوشن پھیل رہا تھا لوگ اس کی وجہ سے کھانسی دمے کے مریض ہورہے تھے ۔ حکومت کب تک بند کرواتی اور لوگ اس کی بات کتنا مانتے اس قابو پانا بھی بڑا مشکل ہو رہا تھا ۔ اچھا ہوا کرونا جی کی کرم فرمائی سے ، کم ازکم لوگ ڈرکے مارے ہی صحیح تھوڑے دن گھر میں تو سکون سے ہیں ، اور دنیا پالوشن فری تو ہورہی ہے ۔ دوسرا طبقہ ابتدا سےاس تشویش میں مبتلا ہے کہ آخر ایسا کیسے اور کیوں ہوگیا ۔ کس کی کارستانی سے ہوا؟ حالانکہ مغرب کا طبقہ اس بات سے پہلے سے واقف ہے کہ دنیا کے مختلف لیب میں حیاتیاتی کلوننگ اور استنساخ کا عمل جاری ہے ۔اور بڑی مقدار میں نباتاتی اور حیاتیاتی کلوننگ ہورہی ہے ۔۔ دنیا بہت ممالک نے بناتات چھوڑ کر کسی بھی جاندار پر اس تجربہ کو ممنوع قرار دے رکھا ہے ۔ اس کے باوجود یہ انسانیت کے دشمنوں نے استنساخی اور کلوننگ سائنس کے ذریعہ حیاتیاتی بکتریاز اور وائرس اپنے لیب میں بائیولوجیکل جنگ کے مقصد سےتیاری کاعمل جاری رکھا۔ اس کی پروش اور افزائش کی اور پھر اسے دنیا کو یا اپنے مطلوبہ دشمن اور انسانی آبادی کو نقصان پہوبچانے کے لئے زمین میں مختلف طریہ سے پھیلایا جس کا خمیازہ آج گزشتہ پانچ ماہ سے۔ پہلے کم اور اب تین سو کروڑ لوگ مختلف ملکوں میں بھگت رہے ہیں۔ اور اس پر کچھ نہ کچھ بول رہے ہیں ۔ تاکہ دنیا کو اس کرب ناک صورت حال سے نکالا جائے، گویا ان کے نزدیک یہ سائنس ارہاب اوربائیولوجیکل دہشت گردی ہے جس کا انکشاف طبی ماہرین نے 2016 میں کردیا تھا کہ اس بائیولوجیکل ارہاب کے نتیجہ میں 2020 میں لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بنیں گے۔ اور یہ بھی کہ یہ وقتی نہیں ہے کہ فلاں مہینے کی فلاں تایخ تک رہے گا اور ختم ہوجاۓ گا بلکہ اس کے بڑے سنگین نتائج سے دنیا دوچار ہوسکتی ہے ۔الا مارحم ربہ ۔۔ اس لئے آپ یا دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اور حکومتیں ۔ ایسا نہ سوچیں کہ ہم وقوتی طور سے گھروں میں محصور ہیں تو محفوظ ہیں ۔ یہ خام خیالی ہے ۔ یہ دنیا ” الارھاب البالوجی“ کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔ اب تو اس سے نجات کا راستہ جتنی جلد ہوسکے ڈھونڈھ لے۔ اب دیکھنا یہ ہے دنیا اس پر کب قابا پانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل معروف محقق عراقی عالم امریکہ میں مقیم سائنس اور تربیتی امور کی انسائیکلوپیڈیائی شخصیت ڈاکٹر ہشام الطالب نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے ۔ ان شاء اللہ ۔ میں عنقریب ان امور پر تفصیلی روشنی اگلے مضمون میں ڈالوں گا کتاب کا نام ہے ۔ {بناء الکون ومصیر الانسان۔نقض لنظریة الانفجار الکبیر۔حقائق مذھبیة۔ فی العلوم الکونیة والدینیة۔صفحہ 600_622}
اب ان حالات میں غور کا پہلو ہمارے لیے امت کے دعوتی ذہن رکھنے والے باشعور افراد کے لئے کیا ہے ۔ اس پر غور کریں ۔ رونے پیٹنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت جو حالات دنیا کے ہیں ۔اس نے دنیا میں دعوت کی بساط بچھادی ہے یہ اعلان کردینے کا موقع فراہم کردیا ہے کہ اب آپ میدان میں آکر یہ کہیں کہ دنیا کو چلانے اور کنٹرول کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی ہے، اور وہ سوال جو ہمیں دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے تھا ، اس وقت حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اہم سوال جس کا جواب روز ازل سے بنی آدم نے دیا تھا ۔ قالوا بلی ۔کہہ کر ، پھر دنیا میں کیسے رب کو بھول گیا۔ ہم تو 1000 سال میں بھی دنیا سے نہیں پوچھ سکے ، اپنی حکومت ، اپنی دنیا ، اپنی معشت، اپنا ملک ، اپنی نیشنلٹی اور اپنی کرنسی میں مست رہے ۔ مگر جب دنیا بے بس و لاچار دواؤں سے مجبور اپنی ہر تدبیر میں ناکام نظر آئی تو کرونا نے ہی وہی سوال دنیا سے پوچھ لیا بتاؤ دنیا والو ! ” أإلہ مع اللہ “۔؟ ۔ اب آگے کی محنت ہمیں کرنی ہے اس نے دعوت اور معرفت کی بساط بچھادی ہے ۔ دین کا، وحدة الہ کا علم اٹھائیے ۔چھوڑیئے ابھی فقہی موشگافیوں کو ۔ اسلامک جورس پروڈنس ، اور فتوے کو اور ان لوگوں کے لئے رہنے دیجئے جو مسندوں پر بیٹھے ہیں۔ وہ تو دے ہی لیں گے ۔ آپ تو اسلام کے عظیم تر مقصد کو محور گفتگو بنائیے ۔ دنیا سے پوری قوت کے ساتھ کہئے ۔ دنیا کے سے استفادہ کا حق سب کو ہے ۔ خرد برداشت کا حق انسان کو نہیں ہے ۔۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اللہ تعالی رمضان کی جملہ سعادتیں، برکتیں، اورفضیلتیں ۔پورے عالم میں امت کے افراد کے لئے بالخصوص اور پوری انسانیت کے لئے بالعموم مقدر فرمائے ۔ آمین۔






