پہلے سال کی تکمیل پر ملک کے نام وزیر اعظم کا خط لفاظی سے حقیقت کو دبانے کی کوشش

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے میڈیا کو جاری اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ملک کے نام وزیر اعظم نریندر مودی کا اپنی دوسری میعاد کے پہلے سال کی تکمیل پر لکھا گیا خط ملک کے سلگتے مسائل کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ اس خط میں بھی غیرضروری لفاظی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ان کے پرانے حربے کو دہرایا گیا ہے۔

بیشتر باتوں جن کا انہوں نے اپنی حکومت کی کامیابی کے طور پر ذکر کیا، وہ درحقیقت سیاسی منافرت سے متعلق باتیں ہیں اور ان کا ایک عام شہری کی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ خط میں ایودھیا پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے جیسے یہ ان کی حکومت کی کامیابی ہو۔ اس سے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ بابری مسجد کا غیرمنصفانہ فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ ہماری دستوری جمہوریت میں، عدالت کے کسی فیصلے سے حکومت کی پالیسی کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، کیونکہ عدالتیں آزاد اور غیر سیاسی ہوتی ہیں۔مودی کو اس سلسلے میں ملک کے سامنے وضاحت پیش کرنی چاہئے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کشمیری عوام سے کئے گئے آئینی وعدے کے ساتھ دھوکہ تھا اور یہ کشمیریوں کی زندگی کے لئے ایک المیہ ثابت ہوا ہے۔
حقیقتاً یہ خط اپنی غلط طرزحکومت اور ناکامیوں کا ٹھیکرا کورونا وبا پر پھوڑنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔ جو لوگ بھی عقل رکھتے ہیں اور ان تمام حددرجہ مشکلات اور پریشانیوں سے بخوبی واقف ہیں جن سے ہمارے مزدور، مہاجر مزدور، کاریگر اور چھوٹی صنعتوں وغیرہ میں کام کرنے والے دستکار لوگ کووڈ-۹۱ وبا کے دوران دوچار ہوئے ہیں، وہ ان کے خط کو مسترد کر دیں گے اور صرف کمزور یادداشت والے کم عقل لوگ ہی اسے قبول کریں گے۔ ہاں، لوگوں کی مشکلات پہلی مودی حکومت میں ہی شروع ہو گئی تھیں اور ان کی دوسری میعاد کے پہلے سال میں وہ اور زیادہ بڑھ گئی تھیں،اور اس کا کورونا وائرس کے آنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس احمقانہ طریقے سے لاک ڈاؤن لگایا گیا اس سے حالات بدتر ہی ہوئے ہیں، جس کا خود اس خط میں بھی اعتراف کیا گیا ہے۔

او ایم اے سلام نے اس جانب اشارہ کیا کہ خالی وعدوں کے سوا کوئی ٹھوس منصوبہ بندی یا تخلیقی اقدامات کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا جو ملک کو اقتصادی بحران سے نکلنے میں مدد کر سکیں۔ پاپولر فرنٹ کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم آر ایس ایس-بی جے پی اور وزیر اعظم سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی فرقہ پرست و سرمایہ دارانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے لوگوں پر آئی مصیبتوں کے لئے غیرمشروط معافی مانگیں گے اور اپنی غلط پالیسیوں کو ترک کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔