مسلم پرسنل لاء کو سمجھنے اور سمجھانے کا ایک نادر موقع!

محمد آصف ا قبال
ایک عورت اپنے شوہر کو بوڑھے ماں باپ سے الگ رہنے پر مجبور کرتی ہے تو سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ہندو لاء کی روشنی میں اسے طلاق دی جا سکتی ہے۔کورٹ نے اپنے تبصرہ میں کہا ہے کہ ہندو لاء کے مطابق کوئی بھی عورت کسی بھی بیٹے کو اس کے ماں باپ کے تئیں مقدس ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روک نہیں سکتی ہے۔ جسٹس انل آردوے اور جسٹس ایل ناگیشور راؤ کی بینچ نے کہا کہ ایک عورت شادی کے بعد شوہر کے خاندان کی رکن بن جاتی ہے ۔لہذا وہ اس بنیاد پر خاندان سے اپنے شوہر کو الگ نہیں کر سکتی ہے کہ وہ شوہر کی آمدنی کا پورا حصہ نہیں پا رہی ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ماں باپ سے الگ رہنے کی مغربی سوچ ہماری تہذیب و ثقافت اور اقدار کے خلاف ہے۔کورٹ نے کرناٹک کی ایک اہلیہ کے طلا ق عرضی کی منظوری دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بھارت میں ہندو خاندانوں میں نہ تو یہ عام بات ہے اور نہ ہی رسوم میں ہے کہ کوئی بھی بیٹا اپنی بیوی کے کہنے پر شادی کے بعد بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ دے ۔خاص طور پر تب جبکہ بیٹا ہی خاندان میں واحد پیسہ کمانے والا ہو۔ ایک بیٹے کو اس کے ماں باپ نے نہ صرف جنم دیا بلکہ پرورش و پرداخت بھی کی اور اس کو بڑا کیا، پڑھایا لکھایا۔صورت میں بیٹے کی قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال کرے۔خاص طور پر اس وقت جب ان کی آمدنی یا تو بند ہو گئی ہو یا کم ہو گئی ہو۔دراصل کرناٹک کے اس جوڑے کی شادی 1992میں ہوئی تھی۔شادی کے کچھ دنوں بعد سے ہی عورت اپنے شوہر پر اکیلے رہنے کا دباؤ بنا رہی تھی۔بیوی کے اس ظالمانہ حرکت کی وجہ سے شوہر نے نچلی عدالت میں طلاق کی عرضی دی تھی۔دوسری جانب خاتون نے الزام لگایا تھا کہ اُس کے شوہر کے نوکرانی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں، اس لیے وہ مجھے طلاق دے رہے ہیں، لیکن کورٹ نے اسے جھوٹا پایا۔ نچلی عدالت نے طلاق کو منظور کر لیا۔ بعد میں خاتون معاملہ کو ہائی کورٹ لے گئی اور آخر کار سپریم کورٹ نے طلاق کی منظوری دے دی۔یہ ایک واقعہ ہے جو ایک جانب ہندو لاء تو وہیں ملک کے آئین پر روشنی ڈالتا ہے ۔یہ واقعہ چند دن پہلے ہی اخبارات کی سرخیوں میں سامنے آیا ہے۔
آئیے پرسنل لاء سے متعلق ایک اور واقعہ کو دیکھتے ہیں،یہ واقعہ مسلم پرسنل لاء سے تعلق رکھتا ہے۔ہندوستان کے آئین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرکز نے مسلمانوں کے درمیان تین طلاق، نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی۔ساتھ ہی جنسی امتیاز اور سیکولرازم کی بنیاد پر ان پر نظر ثانی کرنے کی حمایت کی۔قانون و انصاف کی وزرات نے اپنے حلف نامے میں جنسی امتیاز، سیکولرزم، بین الاقوامی،مذہبی رسموں اور مختلف اسلامی ممالک میں ازدواجی قانون کا ذکر کیا تاکہ یہ بات سامنے لائی جاسکے کہ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت اور تعداد ازدواج پر عدالت کی جانب نئے سرے سے فیصلہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔وزرات میں ایڈیشنل سکریٹری ایم وجے ورگیہ کی طرف سے داخل حلف نامہ میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ تین طلاق ،نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی پریکٹس کی منظوری پر جنسی امتیاز کے اصلولوں اور غیر امتیازی سلوک،وقار اور مساوات کے اصولوں کی روشنی میں غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں میں ایسی روایت کی منظوری کو چیلنج کرنے کے لیے سائرہ بانو کی طرف سے دائر پٹیشن سمیت دیگر درخواستوں کا جواب دیتے ہوئے مرکز نے آئین کے تحت جنسی امتیاز کے حق کی حمایت کی ۔اس نے کہا کہ ،اس عدالت کی طرف سے یقین خواہش کے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایک سیکولر جمہوریت میں یکساں درجہ اور بھارت کے آئین کے تحت خواتین کو وقار فراہم کرنے سے انکار کرنے کے لیے مذہب ایک وجہ بن سکتا ہے۔مرکز نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہونے کے ناطے بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو لے کر مصروف عمل ہے جو مرد اور عورتوں کے لیے یکساں حقوق کی بات کرتا ہے۔لہذا خواتین کے لیے جنسی مساوات کے انتہائی اہم مقصد کی روشنی میں پرسنل قانون کی ضرور پڑتال ہونی چاہیے۔
درج بالا کورٹ کے دو فیصلے جو درج کیے گئے،دیکھا جائے توتضاد محسوس ہوتا ہے۔پہلے فیصلے میں اِس پر بات زور دیا گیا ہے کہ ملک اپنی تہذیب و ثقافت کو داؤ پر نہیں رکھ سکتا، ہندو مذہب اور اس کاپرسنل لااس کی اجازت نہیں دیتا،نیز شوہر پر ماں باپ سے الگ ہونے کا دباؤ ،مغربی تہذیب کا حصہ ہے۔لہذا انہی بنیادیوں پرمرد کو حق ہے کہ وہ ایسی عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔وہیں دوسری جانب مسلم پرسنل لا کے تحت فراہم کردہ تین طلاق، نکاح حلالہ اور تعداد ازدواج کی پریکٹس ،جنسی امتیاز، سیکولرزم اور بین الاقوامی قوانین کی آڑ میں خلاف واقعہ بن جاتی ہے۔ساتھ ہی بھارت چونکہ بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر مصروف عمل ہے ،لہذا مسلم پرسنل لاکے تحت جاری پریکٹس کو،مذہب کی آڑ میں روکنے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔اس کے باوجود یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ اگر بھارت بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر واقعی مصروف عمل ہے اور یہ بات اسی قدر اہم بھی ہے کہ اس کے خلاف جاری پریکٹس کو روکنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں یا اس پر نئے سرے سے غور و فکر کا آغاز ہوا ہے تو پھر کیوں ہندو لا،ہندو تہذیب وثقافت سے تعلق کو قائم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں؟ اور کیوں مغربی تہذیب کا حوالہ دے کر ایک عورت کو اپنے شوہر سے الگ کرنے یا شوہر کو اپنی ہی بیوی کو اس بنا پر طلاق دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے،جو مغربی تہذیب وثقافت کے خلاف ہے۔اسی سلسلے کی تیسری خبر یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ اورتین طلاق پر لا کمیشن نے لوگوں سے رائے مانگی ہے۔کمیشن نے معلوم کیا ہے کہ کیا تین طلاق کا رواج ختم کردینا چاہیے؟کیا ملک میں یکساں سول کوڈ کو اختیار کیا جانا چاہیے؟کمیشن نے سوال نامے کی شکل میں پوچھا ہے کہ کیا موجودہ پرسنل لا اور مروجہ کوڈیفائڈ کرنے کی ضرورت ہے اور کیا اس سے لوگوں کو فائدہ ہوگا؟کمیشن کی جانب سے تیار کیے گئے 16سوالات کے سوال نامے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا تین طلاق کا رواج ختم کردینا چاہیے یا اس کو برقرار رکھا جانا چاہیے یا مناسب ترامیم کے ساتھ برقرار رکھا جانا چاہیے،یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا یکساں سول کوڈ اختیاری ہونا چاہیے،وغیرہ۔کمیشن نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد قوانین کا تنوع قائم کرنے کی بجائے سماجی نا انصافی کو ختم کرنا ہے۔نیزکمزور لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا اور مختلف ثقافتی رواج کو عملی بنانا ہے۔
اس موقع پر مسلم پرسنل لاکے تحفظ اور پریکٹس کوجاری رکھنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ایک دستخط مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔جس میں مسلمانان ہند سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ درج شدہ تحریر کے ساتھ اپنے آس پڑوس کے مسلم گھرانوں کی خواتین سے رائے لیں ،اور متعلقہ علاقہ میں بورڈ کے نزدیکی دفتر میں فراہم کردیں،تاکہ کمیشن و حکومت ہر دو سطح پر بتایا جا سکے کہ مسلمان اللہ رب العزت کے فراہم کردہ قوانین کی خلاف ورزی کو بخوشی قبول نہیں کرسکتے ۔نیز جن قوانین کو اُن کے رب نے ان کے لیے پسند کیا ہے مسلمانان ہند اور ان کے اہل خانہ اُنپر یکسوئی اور مکمل اطمینان کے ساتھ عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔تحریر جو فراہم کی گئی ہے وہ اس طرح ہے: “ہم دستخط کنندگان خواتین ہر ایک پر واضح کردینا چاہتی ہیں کہ ہم اسلامی شریعت کے تمام احکام خاص طور پر نکاح،وراثت،طلاق، خلع اور فسخ نکاح کے دینی احکام پر پوری طرح مطمئن ہیں اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کی ضرورت یا گنجائش سے انکار کرتی ہیں۔ہم قانون شریعت کی حفاظت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ساتھ ہیں۔ہم زور دے کر کہتی ہیں کہ قانون شریعت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اپنی معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے،بگڑی عادتوں کو سدھارنے اور ایماندارای کے ساتھ شریعت پر عمل کرنے کی ہے”۔فی الوقت کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ تمام حضرات جو اس مضمون کو پڑھیں اور جن تک بورڈ کا یہ پیغام راست نہ پہنچا ہو،چاہیے کہ اس کو ایک صفحہ پر لکھ کر مسلم خواتین کے نام ،پتہ،موبائل نمبر اور دستخط کے ساتھ قریب ترین بورڈ کے آفس میں یا ای میل اورواٹس اَپ کے ذریعہ اُس کے مرکزی دفتر میں فراہم کریں۔ساتھ ہی مسلم پرسنل لا کیا ہے؟اِس کو خود بھی جانیں اوردوسروں میں بھی یہ پیغام عام کریں!(ملت ٹائمز)
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com

SHARE