نزہت جہاں
ملت ٹائمز
ایک مرد اور عورت کے درمیان اسلامی قانون کی رو سے جو تعلق اور رابطہ پیدا ہوتا ہے اسے نکاح کہتے ہیں۔نکاح محض نفسانی اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں ہے اور نہ نکاح کا یہ مقصد ہے کہ ایک مرد اور عورت کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے گلے پڑ جائیں ۔شریعت بھی اس امر کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ عورت کوشہوانی خواہشات کی تکمیل کا آلہ کار بنا دیا جائے ۔شریعت اسلامیہ میں نکاح ایک دینی اور مذہبی عمل ہے ۔سماجی ، معاشرتی ، اخلاقی اور تمدنی تہذیب و کلچر ہے ۔مرد و عورت میں الفت و یگانگت اور میاں بیوی میں باہمی مناسبت کا پاکیزہ رشتہ ہے ۔نکاح کا مقصد اصلی یہ ہے کہ مرد و عورت کے میل ملاپ سے ایک کامل اور خوشگوار زندگی وجود میں آئے نسل انسانی کا سلسلہ بھی حدودِ الہٰی کی نگرانی کے درمیان بڑھتا اور پھولتا پھلتا رہے۔
لیکن عصر حاضر میں شادی کو اسلامی تعلیمات کے فلسفہ سے مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہے ۔ نکاح اور شادی کا مقصد معاشرہ میں کچھ اور سمجھاجانے لگا ہے ۔ ازدواجی زندگی خوشگوار ہونے کے بجائے دن بہ دن سنگین ہوتی جارہی ہے ۔ میاں بیوی کے رشتے تلخیوں کے سایے تلے پروان چڑھ رہے ہیں۔ جس کا برا اثران کی اولاد پر بھی پڑتا ہے آنے والی زندگی مزید جہنم نما ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ہندوستانی معاشرہ میں بیوی کا تصور ایک باندی کے طور پر سمجھاجانے لگا ہے ۔ بیوی سے ہر طرح کا کام لینا، انہیں موقع بہ موقع ڈانٹنا ، ان پر شک کرنا ، ان کی پٹائی کرنااور اس طرح کے دیگر امراض ہمارے معاشرہ میں مسلسل بڑھتے جارہے ہیں ۔شادی کا مطالب یہ سمجھا تا ہے اب بیوی گھر کا پورا کام کرے گی ۔ تنہا پوری فیملی کا کھانا بنائے گی ۔ دن بھر سسروال والوں کی خدمت کرے گی ، دن و رات کے چوبیس گھنٹے وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہے گی ۔ دوسرے لفظوں میں اب لڑکی کا ا پنا وجود ختم ہوچکا ہے ۔اس کی کومرضی نہیں ہے ۔یہی نہیں شادی کے بعد تو لڑکی کا رشتہ اس کے اہل خانہ سے ختم کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کچھ ظالم شوہر تو ایسے ہوتے ہیں کہ میکے جانے پر پابندی لگادیتے ہیں ۔اگر کسی خاتون سے گھریلوکاموں کے کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی ہوتی ہے ، کسی وجہ سے وہ نہیں کر پاتی ہے تو پھر کیا ہے ساری فیملی کے لوگ ایک ہوکر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں ۔ ان کی پریشانیوں پر کسی کی نظر نہیں جاتی ہے ہر ایک کی نگاہ اس بات پر ہوتی ہے کہ آج اس نے کام کیوں نہیں کیا ۔ کھانا کیوں نہیں بنایا۔کام نہ کرنے کے ڈر سے مرض کا بہانہ بہاکر سورہی ہے ۔ اس طرح کے جملے ساس اور نند سے سننے پڑتے ہیں ۔ شوہر نامدار بھی تشریف لانے کے بعد اپنا غصہ اتار دیتے ہیں۔ بیوی کے کسی عذر کا خیال رکھنے کے بجائے ڈانٹنے اور ڈپٹنے کے ساتھ دو چار ہاتھ لگابھی دیتے ہیں ۔آج کے معاشرہ کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے جسے میں نے اپنے الفاظ میں یہاں پیش کرنے کو شش کی ہے ورنہ حقیقی صورت حال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہے جس سے بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اور خاص طور سے مسلم معاشرہ میں یہ چیزیں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ میں مانتی ہوں کہ ایک عورت کی ذمہ داری بحیثیت بیوی گھریلو کاموں کو سنھبالنا ہے اور سسراول والوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے اور ہر بیوی کو خوشی بہ خوشی کرنا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کاموں کے کرنے کے باوجود اس کا کریڈیٹ کیوں نہیں دیا جاتا ہے ۔ کبھی کسی وجہ سے نہ ہونے کے بنا پر انہیں تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ۔ انہیں ان کی مرضی کے مطابق کیوں چلنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ ان کے جاب کرنے او ر پڑھنے لکھنے پر پابندی کیوں عائد کی جاتی ہے۔
چناں چہ اسی طرح کی ایک ویڈیو کلپ مجھے نیٹ پر دیکھنے کو ملی جسے میں یہاں بہ طور عبرت کے لکھ رہی ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ’’ ایک صاحب کی برتھ ڈے پارٹی تھی ۔ان کے ایک دوست اپنی بیوی کے ساتھ تشریف لاءۃ جو صاحب آئے ان کی بیٹی تھی اور جن صاحب کی پارٹی تھی ان کا بیٹا تھا ۔ وہ دونوں بچے آپس میں ایک عجیب کھیل کھیلنے لگے ۔ بچہ دولہا بن گیا اور بچی دلہن بن گئی ۔دونوں نے اپنے ماں باپ سے آکر کہاکہ پاپا ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں دونوں کے والدین وہاں موجود تھے جنہوں نے ڈانٹے ہوئے کہاکہ جاؤ کوئی دوسرا کھیل کھیلو لیکن بچے بہ ضد رہے کہ نہیں ہماری شادی کرادیجئے ۔ بچے کے اصرار کے بعد ان سے پوچھاگیا کہ کہ شادی کرکے کیا کروگے تو لڑکے نے جواب دیا کہ اس کو دلہن بناؤں گا ۔ پوچھا گیا پھر کیا کروگے تو کہا کمرہ میں جاؤں گا ،گیٹ بند کروں گا ۔پو چھا گیا پھر کیا کرو گے۔ بچے نے کہاکہ صبح اٹھوں گا یہ ناشتہ بناکے دے گی میں ناشتہ کروں گا ، پھر یہ بیگ دے گی اور میں اسکول جاؤں گا ۔ پوچھاجاتا ہے پھر کیا کروگے تو بچہ بولتا ہے شام کو اسکول سے آؤں گا اور کپڑا چینچ کروں گا ۔ پوچھا جاتا ہے پھر کیا کروگے اس بچہ کا جواب ہوتا ہے کہ رات کو گھر میں جاؤں گا، گیٹ بندکروں گا اور پہلے ایک طمانچہ لگاؤں گا ‘‘۔ یہ جملے سن کر سب کے سب حواس باختہ ہوجاتے ہیں ۔
شادی خانہ آبادی کہلاتی ہے ۔ اس سے دو گھر بستے ہیں لیکن آج کل الٹا ہورہا ہے ۔ شادی کے بعد زیادہ تر خواتین خوش نہیں رہ پاتی ہیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی کے وقت والدین لڑکیوں سے ان کی رائے نہیں لیتے ہیں ۔ ان کی مرضی نہیں چلنے دیتے ہیں وہ جہاں چاہتے ہیں وہیں شادی کرکے رہتے ہیں ۔ لڑکیاں اپنی شرافت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کچھ نہیں بولتی ہے لیکن یہ اچھا نہیں ہے شادی کے وقت لڑکیوں سے ان مرضی پوچھنی چاہئے ۔ ان کی رائے لے لینی چاہئے کیوں کہ ہر ایک کی اپنی خواہش ہوتی ہے ہرایک کی چوائس ہوتی ہے۔نکاح کے بعد زادواجی زندگی کے خوشگوار نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے شوہر اور بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ہے ۔ اس لئے رشتہ کرتے وقت جلدی بازی کرنے کے بجائے ہر ایک چیز پر نگاہ رکھنی چاہئے ۔ لڑکیوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کسی قابل اور بھروسہ مند انسان کے ہاتھوں میں ماں باپ کو اپنی بیٹی کا مستقبل سونپنا چاہئے ۔
ازداجی زندگی کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ مرد عورتوں کی خواہش کا خیال رکھے ، ان کے ساتھ زدو کوب کا معاملہ نہ کرے ۔ انہیں بے جا تشدد کا نشانہ نہ بنائیں وہیں عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نیک اور صالحہ بیوی ہونے کا ثبوت پیش کرے ۔ اپنے کسی بھی عمل اور کریکٹر سے شوہر اور اہل خانہ کو شکایت کا موقع نہ دے ۔ شادی کے بعدایک لڑکی کی سب سے بڑی دولت اس کا شو ہر ہوتا ہے بلکہ میں یہ کہوں گی کہ شادی کے بعد اس پر سب سے زیادہ اختیار ا س کے شوہر کا ہوتا ہے ۔ اس لئے لڑکیوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے شوہر کی مرضی کا مکمل احترام کرے ۔ ان کی ہر بات کو تسلیم کرے ۔ ہر جائز امر میں ان کی خواہشات کو تسلیم کرے ۔ ان کے دکھ درد میں شرکت کرے ۔ اپنے کسی بھی عمل سے شوہر کو اذیت نہ پہچائے ۔ اپنے میاں کو کسی طر ح کا کوئی شک نہ ہونے دیں ۔ میاں بیوی کے رشتے اسی وقت کامل ہوتے ہیں جب باہم ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے ہیں ،کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان بے پناہ محبت ہوتی ہے کیوں کہ ایک عورت کا حسن اور اس کی زندگی کی کامیابی اس کاخاوند ہی ہے۔وہی محبتوں کا آئینہ ہے ۔ اس کے بغیر عورت کی زندگی ادھوری ہے۔
کسی نے کہاہے اور سچ کہا ہے کہ شوہر کا ایک جملہ ’’ آج تم بہت تھک گئی ہوگی ‘‘ بیوی کے پورے دن کی تھکن کو اتار دیتا ہے اور بیوی کی ایک ’’مسکراہٹ ‘‘شوہر کو گھر ایک جنت کا احساس دلاتی ہے۔
nuzhatjahanm@gmail.com