کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

پروفیسر اختر الواسع
جب کوئی سماجی گروہ زوال کا شکار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی مت ماری جاتی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ایک جہان، اسلام اور مسلمانوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے، ان کی شکست و ریخت پر آمادہ ہے اور ان کو ہر طرف سے سبّ و شتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم مسلکی عناد، مذہبی منافرت اور خود اپنے دین میں تفرقہ اندازی پر لگے ہوئے ہیں۔ روزنامہ انقلاب کے شمالی ہند کی اشاعتوں کے مدیر شہیر جناب شکیل شمسی جو الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا دونوں میں غیر معمولی امتیاز کے حامل صحافی ہیں، اچھے شاعر ہیں اور قلم کے دھنی ہیں اور روز نامہ ’انقلاب‘ کو ایک نیا آہنگ دینے میں اور اسے کثیر الاشاعت کے ساتھ کثیر ایڈیشن اخبار بنانے میں بڑا رول انجام دیا ہے۔ ان کے قلم سے جوادارتی نوٹ شائع ہوتا ہے وہ انتہائی متوازن ، معتدل اور دانشورانہ سوچ کا حامل ہوتا ہے ان کی ہر تحریر حب الوطنی، قومی یکجہتی، ملکی اتحاد ،اور ملی مفادات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان اور فقہ جعفری کے سچے پیرو ہیں۔ انہوں نے اپنی ہر تحریر میں اجتماعیت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ وہ اہل بیتؓ کے ساتھ خلفا ئے راشدینؓ اور تمام ہی صحابہ کرامؓ کو انتہائی احترام سے اپنی تحریروں میں جگہ دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مسئلے سے بحث کرتے ہیں ، مصلحت سے کام نہیں لیتے۔ انہوں نے ملت کے عام مفاد کو کبھی عام انسانیت کے مفاد سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا۔ کورونا وائرس کی اس وبا کے زمانے میں انہوں نے حفظ ماتقدم اور احتیاطی تدابیر پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ سرکار کی عائد کردہ ضروری پابندیوں کی حمایت کی ہے۔ سعودی حکومت نے حج کی اس برس جو تحدیدکی اس کی کھل کر حمایت کی ، انہوں نے فرقہ بندی اور مسلکی عناد کے خلاف ہمیشہ انتہائی ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے افواہوں کی مذمت کی۔
حال ہی میں انہوں نے مسلمانوں میں بہتر (۷۲) فرقوں کو لے کر ایک انتہائی فکر انگیز اور درد مندانہ تحریر اپنے قاریوں کی نظر کی تھی جس کی ہم میں سے اکثر لوگوں نے ستائش کی۔ اس پوری تحریر میں انہوں نے کسی ایک مخصوص فرقے کے ناجی ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں سنایا تھا مگر کچھ لوگوں نے اس پر بھی اس طرح اعتراض کیا جیسے کہ شکیل سمشی سے کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہو گیا ہو۔
ہم سب بجا طور پر یہ مانتے ہیں کہ سب کا کسی ایک خیال کا ہم نوا ہونا ممکن نہیں ہے اور جس طرح ہمیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے اسی طرح دوسرے کو بھی سوچنے اور اپنی فکر کے اظہار کی پوری آزادی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہندوستانی اثرات کے تحت کچھ لوگوں نے دین پر اپنی اجارہ داری کو صحیح سمجھ رکھا ہے جب کہ اللہ جل شانہ ¾ اور اس کے بیچ میں سوائے انبیاءو مرسلین کے کسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں سب سے مناسب صورت نکاح کی یہ ہوگی کہ بیٹی کا نکاح باپ پڑھائے، اسی طرح سب سے اچھی جنازے کی نماز وہ ہوگی جو بیٹا باپ کی پڑھائے لیکن دین سے دوری کہیے یا تغافل ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج محمود و ایاز مسجد میں تو شاید ایک ہی صف میں نظر بھی آجائیں لیکن مسلمانوں میں روح مساوات کے فقدان نے انہیں دسترخوان پر یک جا ہونے کے مواقع کم ہی رکھے ہیں۔
مسلمانوں کے زوال اور سماجی ادبار کا ذمہ دار کوئی باہر والا نہیں بلکہ وہ خود ہی ہیں کیوں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں لیکن قرآن کی نہیں مانتے۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے کرنے کے سارے کام اللہ کے سپرد کر دیے ہیں اور اللہ کے کرنے کے سارے کام اپنے ذمے لے رکھے ہیں۔ بیوی کی صحت کیسی ہے؟ بیٹی کی عمر کتنی ہو گئی ہے؟ بیٹے کی تعلیمی استعداد کتنی ہے؟ اس کا انہیں کچھ پتہ نہیں لیکن یہ بخوبی معلوم ہے کہ ان کے ہم عصروں میں کس کے دل میں کتنا ایمان ہے اور کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں؟ یہ انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کی سوچ اور ان کا رویہ سراپا رحمت جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے بالکل برعکس ہے جس میں بخاری شریف میں درج حدیث کے مطابق آپ نے ایمان والوں کی پہچان یہ بتائی کہ وہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ لیکن عام طور پر ہم مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ غیر مسلم اکثر یتی ملکوں اور معاشروں میں اپنے لیے آزادیاں، حقوق اور مراعات چاہتے ہیں ،مسلم اکثریتی ملکوں اور معاشروں میں غیر مسلم اقلیتوں کو دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آج ہمارے آئیڈیل ملا عمر ہیں، امیر المومنین عمر ابن خطاب ؓ نہیں۔ ہم بظاہر تو یہ کہتے نظر آتے ہیں جو نافع ہوتا ہے وہی سماج میں قابل قبول بھی ہوتا ہے اور مستند بھی لیکن کل کی طرح آج ہم زمانے کو کچھ دینے پر آمادہ بھی نہیں ہیں اور دینا تو بڑی چیز ہے لینے کا سلیقہ بھی بھول گئے ہیں لینے کے نام پر بھی لفظی انتقام سے آگے نہیں بڑھ پاتے اور ہمیں نظام مصطفیٰ برپا کرنے کا تو شوق ہے لیکن اس کے لیے اخلاق مصطفی کی بنیادی شرط کو پورا کرنے کا یکسر خیال نہیں ۔ ہم اسلام کو جو انفاق کا مذہب ہے نفاق کا مذہب بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اسلام جو لکم دینکم ولی دین کا نقیب و داعی ہے اس میں دین تو چھوڑئے مسلکوں کو بھی جبر کا پیکر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ دین جس میں نماز، زکوٰة، روزے اور حج کا حکم بعد میں آیا پہلے اقراءکا حکم صادر ہو ا اس کے ماننے والے آج علمی طور پر جس قدر پسماندہ ہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہ دین جو صبر و قناعت، توکل اور استغنا سے عبارت ہے اس کے ماننے والے حرص و ہوس، طمع اور حسد کے پیرو کس طرح بن سکتے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے؟
ہم یہ بات ہمیشہ کہتے رہے ہیں اور اسے آج بھی دوہرانے میں کوئی تکلف نہیں کہ کسی بھی مسلک کے پیشوا ہوں یا سلسلہ عرفان و تصوف کے مرشدین یا پھر فقہا ، مجتہدین اور متکلمین یہ سب اپنی تعبیر، تشریح اور تفسیر کی بنا پر ہماری عقیدتوں کے مرکز ہیں ، عقیدے کامحور نہیں۔ عقیدے کا محور صرف اور صرف اللہ، اس کا آخری رسول اور اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم ہیں۔ یا پھر جن کی طرف انہوں نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ اب جسے ماننا ہے آپ اسے مانیں لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ مسالک دین کے تابع ہیں، دین کو مسلکوں کا تابع بنانے کی کوشش نہ کریں۔
یہ تما م معروضات دکھے دل کے ساتھ صرف اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ آج ضرورت اختلافات کو خیر امت بنانے کی ہے اسے ایک دوسرے کے خلاف ہزیمت و شکست کا ہتھیار بنانے کی نہیں۔ ہمارے اسلاف نے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی عزت اور حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی بلکہ توسع اور احترام کی بے نظیر مثالیں قائم کیں اور ساتھ ہی یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ جب اختلاف کو فتنہ و فساد و عناد کا ذریعہ بنایا گیا تو اسپین میں مسلمانوں کا سقوط دیکھنے میں آیا ۔
اور ایک بات یہ بھی کبھی نہ بھولیں کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کافروں کو مسلمان بنانے کے لیے آئے تھے ، مسلمانوں کو کافر بنانے کے لیے نہیں۔ کون ناجی ہے اور کون ناری، خدا کے لیے اس کا فیصلہ اللہ ہی پر چھوڑ دیجیے خود مالک یوم الدین بننے کی کوشش نہ کریں۔ اب اگر کوشش کرنی ہے تو صرف یہ کیجیے کہ اللہ جل شانہ ¾ ہمیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرمائے، اپنی عبادات کی ادائیگی کی صحیح معنوں میں توفیق دے اور جو کچھ اس نے ہمیں دیا ہے اس میں ہم دوسروں کو اخلاص نیت اور ہمدردی و خیر سگالی کے ساتھ شریک کر سکیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی دنیا میں سربلندی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور،راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں