تبلیغی جماعت پر بمبئی ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ

خبر در خبر (637)
شمس تبریز قاسمی
گودی میڈیا نے دو مہینہ تک لگاتار تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی ۔بھارت میں کرونا وائرس کیلئے ڈائریکٹ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ذمہ دار بتایا ۔ یہ کام صرف میڈیا نے نہیں کیا بلکہ مرکز کی بی جے بی حکومت ۔ اور دلی کی کجریوال سرکار نے بھی گودی میڈیا کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہ کہنا مشکل ہے کہ گودی میڈیا کی رپوٹ کی وجہ سے سرکار نے بھی تبلیغی جماعت کو کرونا وائر س کیلئے ذمہ قرار دیا یا پھر سرکار کے اشارے پر گودی میڈیا نے فیک نیوز اور فرضی خبریں چلائی۔ تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی اور بلاکسی وجہ کے مسلمانوں کو بدنام کیا ۔ حقیقت جو بھی ہو یہ ضرورہوا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔مسلما ن اچھوت بن گئے ۔ لیکن قدرت کا اصول ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر کوئی بھی دلیل زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پاتی ہے ۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا ہے ۔ دھیرے دھیرے سچ سامنے آتاگیا ۔ حقیقت لوگوں کو معلوم ہونے لگی کہ تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا کی رپوٹ میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ اور اب عدالت نے اس پورے معاملے کو واضح کردیاہے ۔
بمبی ہائی کورٹ نے حکومت اور میڈیا دونوں کو زبردسٹ پٹھکار لگائی ہے۔ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئی بمبی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کہاہے کہ سرکار نے اپنی ذمہ داری سے بچنے کیلئے تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا ۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے جان بوجھ کر منفی پیروپیگنڈہ کیا ۔ فیک نیوز چلاکر بدنام کیا ۔ باہر سے آئے لوگوں کی عزت اور وقا رٹھیس پہونچایا ۔ انہیں کرونا وائراس کے پھیلاﺅ کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا ۔ یہ سب ایک پلاننگ ۔ منصوبہ بندی اور سازش کے تحت ہوا ۔
بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا فیصلہ آنے کے بعد ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اس پر زیادہ سے زیادہ بحث ہوتی ۔ اس فیصلہ میں جو کچھ کہاگیاہے ا س کی زیادہ سے تشہیر کی جاتی ۔ ٹی وی چینلنوں پر ہونے والے ڈبیٹ میں اسے کو موضوع بنا نا چاہیے ۔ پرائم ٹائم میں اس پر چرچار کرنا چاہیئے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو ا ۔ اس فیصلہ پر میڈیا خاموش ہے اور گودی میڈیا کی خاموشی کی وجہ صاف ہے کیوں کہ یہ فیصلہ گودی میڈیا کے خلاف ہے ۔ بمبی ہائی کورٹ نے گودی میڈیا کی سچائی بتائی ہے ۔ عدالت نے بھارت کے لوگوں یہ آئینہ کے صاف طور پر بتایا ہے کہ میڈیا نے دو مہینہ تک لگاتار زہر پھیلا ۔ اشتعال انگیزی کی ۔فرضی خبریں او ر فیک نیوز چلایا ۔ تبلیغی جماعت کو بدنام کیا ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر پورے ملک کا ماحول خراب کیا ۔
آئیے پہلے جانتے ہیں کہ بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں کیا فیصلہ سنایاہے ۔
عدالت نے تبلیغی جماعت معاملہ میں ملک اور بیرون ملک جماعتیوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ انھیں ‘بلی کا بکرا’ بنایا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ہی انفیکشن کا ذمہ دار بتانے کا پروپیگنڈا چلایا گیا جو مناسب نہیں ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے ساتھ ہی میڈیا کو اس عمل کے لیے پھٹکار بھی لگائی۔
بمبئی ہائی کورٹ نے ہفتہ کے روز معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ “دہلی کے مرکز میں آئے غیر ملکی لوگوں کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا پروپیگنڈا چلایا گیا۔ ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی جس میں ہندوستان میں پھیلے کووڈ-19 انفیکشن کا ذمہ دار ان بیرون ملکی لوگوں کو ہی بنانے کی کوشش کی گئی۔ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ہندوستان میں انفیکشن کے تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عرضی دہندگان کے خلاف ایسے ایکشن نہیں لیے جانے چاہیے تھے۔ غیر ملکیوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی، اس پر ندامت کرنے اور ازالہ کے لیے مثبت قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔”
بنچ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ “ایک سیاسی حکومت اس وقت بلی کا بکرا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جب وبا یا آفت آتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ممکن ہے ان غیر ملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔” اس دوران بنچ نے یہ بھی کہا کہ “کسی بھی سطح پر یہ انداز ممکن نہیں ہے کہ وہ (غیر ملکی) اسلام مذہب کی تشہیر کر رہے تھے یا کسی کا مذہب تبدیل کرانے کا ارادہ تھا۔
اورنگ آباد ہائی کورٹ میں تبلیغی جماعت کے 29 غیر ملکی اراکین کا مقدمہ تھا ۔ ان سبھی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188/269/270/290 مہاراشٹرا پولس ایکٹ 195 135 سمیت کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ان سبھی کے خلاف یہ بھی الزام لگایاگیا کہ انہوں نے ٹورسٹ ویزا کا غلط استعمال کیا ۔ مذہبی پروگرام میں حصہ لیا اور مذہب کی تبلیغ کی ۔ غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی ۔ بمبی ہائی کورٹ نے اس کی بھی تردید کی ۔ ہائی کورٹ نے کہاکہ ٹورسٹ ویزا رکھنے والوں کیلئے مذہبی تقریب میں شرکت ممنوع نہیں ہے ۔تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شریک ہوکر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے ۔جہاں تک الزام ہے مذہب کی تبلیغ کیا تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ ہندوستان میں اردو یا ہندی زبان بولی جاتی ہے جبکہ ان غیر ملکیوں کی زبان الگ ہے ۔ جس زبان کو وہ جانتے ہیں اس میں یہاں تبلیغ کرنا ممکن نہیں ہے ۔
جسٹس نالونڈے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی کا حصہ ہے ۔ اس جماعت کا کام مذہبی اصلاح اور ریفورم ہے ۔ ہر مذہب میں اصلاح اور ریفوم کاکام ہوتاہے ۔دنیا کی ترقی اور سماج میں مسلسل پیدا ہونے والی تبدیل کی وجہ سے مذہبی اصلاح وقت کی اہم ضررت ہے ۔کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی مذہب کی تبلغی کررہے تھے اور دوسروں کا مذہب تبدیل کرارہے تھے ۔ اس کا کوئی ریکاڈ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت ہے ۔ ریکا ڈ یہ بھی بتارہاہے کہ یہ غیر ملکی ہندوستانی زبان جیسے اردو یا ہندی بولنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔ بلکہ ان کی زبان عربی ۔ فرنچ یا کچھ اور ہے جس بنیاد پر نہیں بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان غیر ملکوں کا مقصد مذہبی اصلاح اور اس کی تبلیغ ہے ۔ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان کی منشاءمذہب کا فروغ اور دورسروں کا مذہب تبدیل کرانا ہے ۔
جسٹس نالونڈے نے اپنے تبصرہ میں مزید کہاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جان بوجھ کر مرکز نظام الدین میں آئے تبلیغی جماعت کے اراکین کے خلاف منفی پیر وپیگنڈا کیا اور یہ بتایاکہ انہیں لوگوں کی جہ سے بھارت میں کرونا پھیلا ہے ۔
بھارت میں کرونا وائرس جنوری میں ہی آگیا تھا ۔ لیکن سرکا ر بے خبر تھی۔ میڈیا کو بھی اس رپوٹ سے کوئی مطلب نہیں تھا ۔ 24فروری 2020 کو احمد آباد میں ایک پروگرام ہوا ۔ نمسٹے ٹرمپ ۔ اس پروگرام میں لاکھوں لوگ تھے ۔ ماہرین کا مانناہے کہ اس پروگرام کے بعد تیزی سے بھارت میں کرونا پھیلانا شروع ہوا ۔ لیکن اب بھی سرکار بے خبر تھی اور میڈیا بھی لا پروا ہ ۔ 10 مارچ کے بعد سرکار کو پتہ چلا کہ بھارت میں کرونا پھیل رہاہے ۔ ہلکے پھلکے اقدامات کئے گئے ۔ 22جنوری کو پی ایم مودی نے جتنا کرفیو کا اعلان کیا ۔25اگست سے پورے ملک میں لاک ڈاﺅن نافذ کردیا گیا ۔ فلائٹ ۔ ٹرین ۔ بسیں ۔ کارسبھی کچھ بند ۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا لاک ڈاﺅن لگا تھا ۔ جب یہ سب کچھ ہورہاتھا اس وقت مرکز میں ہمیشہ کی طرح تبلیغی جماعت کے اراکین موجود تھے ۔ ملک کے بھی اراکین تھے اور فورین کنٹریز کے بھی لوگ تھے ۔ نظام الدین مرکز کی انتظامیہ نے سرکار سے اپیل کی کہ ہم اپنے لوگوں کو ان کے گھر بھیجنا چاہیتے ہیں ۔ نظام الدین پولس اسٹیشن میں اپیل دائر کرکے باضابطہ مطالبہ ہوا کہ گاری کا انتظام کیا جائے لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ ا دھر میڈیا نے مرکز کو نشانہ بنادیا ۔ ہر چینل پر یہی خبر چلنے لگی کی بھارت میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے کرونا پھیلا ہے ۔ انہیں لوگوں نے ملک کو کرونا کی وبا سے دوچار کیا ہے۔ اور پھر فرضی خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ حکومت کی ہیلتھ منسٹری نے کہاکہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے کرونا مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا ۔ اروند کیجریوال نے تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین کو دہلی میں کرونا کیلئے ڈائریکٹ ذمہ دار بتادیا ۔ پورے بھارت میں مسجدوں پر چھاپے مارے گئے ۔ جہاں بھی کوئی تبلیغی جماعت کا مل رہاتھا اسے گرفتار کے جیل بھیجا جارہاتھے ۔دوسرے ملک کو جو جماعتی تھے ان کے ساتھ اور بدترین معاملہ کیاگیا ۔کئی طرح کی ایف آئی آر ان کے خلاف درج کرلی گئی اور پورے طور پر ان کو مجرم بناکر پیش کردیاگیا ۔بہر حال بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے تقریبا اکثر لوگ اپنے ملک کو لوٹ چکے ہیں ۔ جو یہاں ہیں ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکاہے ۔ دوماہ قبل مدراس ہائی کورٹ نے بھی تبلیغی جماعت کے متعلق اسی طرح کااہم فیصلہ سنایاتھا ۔سب سے زیادہ تبلیغی جماعت کے اراکین انڈونیشیا کے یہاں پھنسے ہوئے تھے جن میں اکثر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں ۔ ملک کی کئی تنظیموں ۔ وکیلوں کے ساتھ جمعیت علماءہند نے بھی اس معاملے میں خصوصی کردار ادا کیا ہے ۔
تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا نے کس طرح خبریں چلائی ۔ بڑے بڑے اینکروں نے کس طرح بدنام کیا اور پیروپیگنڈہ سے کام لیا ۔ اس کا ایک نمونہ یہاں دیکھ لیجئے ۔
میڈیا کے اس پیروپیگنڈہ نے کئی بے گناہ لوگوں کی جان لی ۔ نفرت پھیلا ۔ سماج میں انتشار پیدا ہوا ۔ میڈیا کی اسی زہر افشانی کی وجہ سے مولانا سعد کے خلاف کئی مقدمات درج ہوگئے ہیں اور مرکز نظام الدین کی عمارت بھی جانچ کے دائرے میں آگئی ہے ۔ دوبارہ کب اس عمارت میں نماز پڑھنے اور جماعت کے کام کاج کو جاری رکھنے کی اجازت ملے گی اس بارے میں ابھی کوئی اپڈیٹ نہیں ہے ۔
بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے ذریعہ اس فیصلہ کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا ہے۔ ٹوئٹ میں انھوں نے عدالتی فیصلے کی ستائش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “پوری ذمہ داری سے بی جے پی کو بچانے کے لیے میڈیا نے تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا۔ اس پورے پروپیگنڈا سے ملک بھر میں مسلمانوں کو نفرت اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ٹوئٹر پر کئی صارفین نے میڈیا اور اروند کجریوال سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیاہے کہ کیوں کہ اس جھوٹ اور نفرت کو پھیلانے میں انہیں دونوں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں )