ممبئی (ملت ٹائمز)
عدالت نے تبلیغی جماعت معاملہ میں ملک اور بیرون ملک جماعتیوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ انھیں ‘بلی کا بکرا’ بنایا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو ہی انفیکشن کا ذمہ دار بتانے کا پروپیگنڈا چلایا گیا جو مناسب نہیں ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے ساتھ ہی میڈیا کو اس عمل کے لیے پھٹکار بھی لگائی۔
بمبئی ہائی کورٹ نے ہفتہ کے روز معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ “دہلی کے مرکز میں آئے غیر ملکی لوگوں کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا پروپیگنڈا چلایا گیا۔ ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی جس میں ہندوستان میں پھیلے کووڈ-19 انفیکشن کا ذمہ دار ان بیرون ملکی لوگوں کو ہی بنانے کی کوشش کی گئی۔ تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ہندوستان میں انفیکشن کے تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عرضی دہندگان کے خلاف ایسے ایکشن نہیں لیے جانے چاہیے تھے۔ غیر ملکیوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی، اس پر ندامت کرنے اور ازالہ کے لیے مثبت قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔”
بنچ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ “ایک سیاسی حکومت اس وقت بلی کا بکرا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے جب وبا یا آفت آتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ممکن ہے ان غیر ملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔” اس دوران بنچ نے یہ بھی کہا کہ “کسی بھی سطح پر یہ انداز ممکن نہیں ہے کہ وہ (غیر ملکی) اسلام مذہب کی تشہیر کر رہے تھے یا کسی کا مذہب تبدیل کرانے کا ارادہ تھا۔
اورنگ آباد ہائی کورٹ میں تبلیغی جماعت کے 29 غیر ملکی اراکین کا مقدمہ تھا ۔ ان سبھی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 188/269/270/290 مہاراشٹرا پولس ایکٹ 195 135 سمیت کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ان سبھی کے خلاف یہ بھی الزام لگایاگیا کہ انہوں نے ٹورسٹ ویزا کا غلط استعمال کیا ۔ مذہبی پروگرام میں حصہ لیا اور مذہب کی تبلیغ کی ۔ غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی ۔ بمبی ہائی کورٹ نے اس کی بھی تردید کی ۔ ہائی کورٹ نے کہاکہ ٹورسٹ ویزا رکھنے والوں کیلئے مذہبی تقریب میں شرکت ممنوع نہیں ہے ۔تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شریک ہوکر انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے ۔جہاں تک الزام ہے مذہب کی تبلیغ کیا تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ ہندوستان میں اردو یا ہندی زبان بولی جاتی ہے جبکہ ان غیر ملکیوں کی زبان الگ ہے ۔ جس زبان کو وہ جانتے ہیں اس میں یہاں تبلیغ کرنا ممکن نہیں ہے ۔
جسٹس نالونڈے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی کا حصہ ہے ۔ اس جماعت کا کام مذہبی اصلاح اور ریفورم ہے ۔ ہر مذہب میں اصلاح اور ریفوم کاکام ہوتاہے ۔دنیا کی ترقی اور سماج میں مسلسل پیدا ہونے والی تبدیل کی وجہ سے مذہبی اصلاح وقت کی اہم ضررت ہے ۔کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی مذہب کی تبلغی کررہے تھے اور دوسروں کا مذہب تبدیل کرارہے تھے ۔ اس کا کوئی ریکاڈ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت ہے ۔ ریکا ڈ یہ بھی بتارہاہے کہ یہ غیر ملکی ہندوستانی زبان جیسے اردو یا ہندی بولنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔ بلکہ ان کی زبان عربی ۔ فرنچ یا کچھ اور ہے جس بنیاد پر نہیں بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان غیر ملکوں کا مقصد مذہبی اصلاح اور اس کی تبلیغ ہے ۔ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ بالکل نہیں کہاجاسکتاہے کہ ان کی منشاءمذہب کا فروغ اور دورسروں کا مذہب تبدیل کرانا ہے ۔
جسٹس نالونڈے نے اپنے تبصرہ میں مزید کہاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جان بوجھ کر مرکز نظام الدین میں آئے تبلیغی جماعت کے اراکین کے خلاف منفی پیر وپیگنڈا کیا اور یہ بتایاکہ انہیں لوگوں کی جہ سے بھارت میں کرونا پھیلا ہے ۔