نامور نوجوان صحافی اور صاحب بصیرت عالم ڈاکٹر عبد القادر شمس کا سانحہ ارتحال
مفتی احمد نادر القاسمی
ایک انمول ، شگفتہ مزاج ، بااخلاق ، ہنس مکھ ، شائستہ صحیفہ نگار ، ہمہ جہت خوبیوں کا مالک ، اپنوں میں اپنا غیروں میں اپنائیت کی چھاپ چھوڑنے والا ، زعفرانی سیاست کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے والا زیرک نوجوان ، نئی صحافتی صف بندی کا آئیڈیل ، معروف عالمانہ اور دینی مزاج کا حامل صحافی ، فاضل دیوبند ، یاروں کا یار ، اپنوں اور پرایوں کا غمخوار شاندار مصنف و انشاپرداز ، کئی کتابوں کے مؤلف و مرتب ، دیوبند ، امارت شرعیہ ، بہار ۔ جامعہ ملیہ کا پروردہ ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کا تربیت یافتہ ، ملی کونسل کے ماہنامہ ” ملی اتحاد “ سے اپنی صحافتی اور ملی زندگی کا آغاز کرنے والا ملت کا مخلص سپوت ڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی آج اپنے ہزاروں شیدائیوں ، دوستوں اور اہل خانہ کو ہمیشہ کے لئے داغِ مفارقت دے کر اس دارِ فانی کو الوداع کہتے ہوئے دارِ بقا کو کوچ کر گیا ۔ اور جامعہ ہمدرد کے مجیدیہ ہاسپٹل ، نئی دہلی میں مورخہ ۲۵ اگست ۲۰۲۰ بروز منگل نمونیہ اور سانس کی تکلیف سے جنگ لڑتے ہوئے جاں بر نہ ہوسکا اور زندگی کی آخری سانس لی ۔ إِنَّا لِلّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
ان کے انتقال سے سنجیدہ اور بے باک و شفاف صحافت کا ایک انمول اور پرنٹ میڈیا کا درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا ۔۔ ؏
” اک دیا اوربجھا اوربڑھی تاریکی “
ان کے رخصت ہوجانے سے راسٹریہ سہارا ہی نہیں، دہلی کی روایتی صحافت کا عظیم خسارا ہوا ہے۔ اس صالح فطرت ، سنجیدہ اور متحمل المزاج شخص کی یاد ہمیشہ اور برسوں تڑپائے گی ، مگر وہ نہیں ہوں گے ، صرف ان کی یادیں باقی رہیں گی۔ ان کے بغیر مجلسیں اداس اور محفلیں سونی رہیں گی۔ ابھی کم عمر تھے ، نشیط تھے ، عزم و حوصلہ بھی پرجوش اور جوان تھا بلند ہمت تھے ۔زبان میں بڑی مٹھاس تھی ، ابھی ان کو بہت کچھ دیکھنا اور کرنا تھا ۔ ابھی تو زندگی کی زیادہ سے زیادہ ۴۸ – ۴۹ بہاریں ہی دیکھی تھی ۔ ؎
وہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
دل نہیں مان رہاہے کہ ان کو مرحوم کہوں ، مگر رب کی مرضی اور اس کے فیصلے کے آگے ہر ایمان والے کو یہ کہنا پڑتا ہے ربنا انک علی کل شئی قدیر ۔۔
جب اس نے چاہا جس کی گود اور آنگن میں چاہا ہم آگئے ، جب وہ اپنے پاس بلائے گا واپس چلے جائیں گے ۔۔ بقول حضرت ابراہیم ذوق کے : ؎
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے ، نہ اپنی خوشی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یوں ہی، جب تک چلی چلے
اللہ تعالی نے ہر انسان کے آنے اور جانے کا نظام اور وقت مقرر کر رکھا ہے ۔ اس سے نہ آگے ہوسکتاہے اور نہ پیچھے ۔” لایستأخرون ساعة ولایستقدمون “
اس احساس اور ایمان کے ساتھ اللہ رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ڈاکٹر عبد القادر صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور ان کے جانے سے جو ملک و ملت اور افراد خانہ کا خسارا ہوا ہے ۔ اللہ ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد ۔