معصوم مراد آبادی
1857 کی جنگ آزادی میں سرفروشانہ کردار ادا کرنے والے اخباروں میں سب سے جلی نام ’دہلی اردو اخبار‘ کا ہے، جسے مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے جاری کیا تھا۔ دہلی ’اردو اخبار‘ کو جنگ آزادی کی تحریک میں اس لیے بھی اہمیت دی جاتی ہے کہ انگریزوں نے پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مولوی محمد باقر کو 16ستمبر1857کو گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ یہ ہمارا ہی سرمایہ افتخار ہے کہ ملک کی آزادی کےلئے اپنی جان نثار کرنے والا صحافی اسی اردو زبان نے پیدا کیا جس نے ’انقلاب‘ جیسا لا زوال نعرہ ایجاد کیا تھا۔ اردو صحافت کےلئے اس سے بڑا فخر اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس نے ملک کی آزادی کےلئے اتنی بڑی قربانی پیش کی ۔ ’دہلی اردو اخبار‘ محض سیاسی خبروں سے ہی مزین نہیں تھا بلکہ اس دور کی علمی اور ادبی سرگرمیوں کا بھی بھر پور عکس اس میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بقول خواجہ احمد فاروقی:
”دہلی اردو اخبار ‘ شاہجہاں آباد دہلی کا پہلا اردو اخبار ہے جس کے مطالعہ سے مومن وغالب ، شیفتہ و آزردہ اور ذوق و ظفر کا سارا ماحول اپنی پوری سامانیوں کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور ہم اس جام جم میں دو دنیاؤں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں جس میں ایک ابھرتی ہوئی ہے ،دوسری ڈوبتی ہوئی۔“
دہلی اردو اخبار کی تاریخ اجراءسے متعلق اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ مارگریٹا بارنس نے اس کے اجراء کا سال 1838 درج کیا ہے جبکہ پروفیسر اشتیاق حسین قریشی نے اس کی تاریخ اجراء 1837قرار دی ہے۔ لیکن خود مولوی محمد باقر کے فرزند مولانا محمد حسین آزاد جو اس اخبار سے وابستہ تھے ، اس کاسنہ اشاعت 1835 بتاتے ہیں:
”1835سے دفاتر سرکاری بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ چند سال کے بعد کل دفتروں میں اردو زبان ہو گئی ۔ اس شہرمیں اخباروں کو آزادی حاصل ہوئی۔ 1836 میں اردو کا اخبار دلی میں جاری ہوا اور یہ اس زبان کا پہلا اخبار تھا کہ میرے والد مرحوم کے قلم سے نکلا۔“
’دہلی اردو اخبار‘ اپنے آپ میں اردو کا پہلا مکمل ہفتہ وار اخبار تھا جس کے ذریعہ ہمیں اس عہد کی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ادبی اور علمی سرگرمیوں کا حال بھی معلوم ہوتا ہے اور مرزا غالب کے ایک خط کے ذریعہ ہی یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ’دہلی اردو اخبار‘ 1837میں ضرور نکل رہا تھا۔
دہلی اردو اخبار ہفتہ وار 30×20 کے سائز پر شائع ہوتا تھا۔ ماہانہ قیمت 2روپے اور زر سالانہ 20 روپے تھا۔ اس کا پہلا نام ’اخبار دہلی‘ تھا لیکن 10 مئی 1840 (نمبر 168جلدنمبر3) سے اس کا نام ’دہلی اردو اخبار ‘ہو گیا ۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ کاغذ قدرے سفید اور کتابت قدرے جلی اور کشادہ ہو گئی۔ 12جولائی 1857 کو نمبر 28 جلد 19 سے اس کا نام بہادر شاہ ظفر کے حکم پر’ اخبار الظفر‘ کر دیا گیا۔ اخبار کا نمبر اور جلد کا شمار وہی رہا جو ’دہلی اردو اخبار‘ کا تھا، اور یہ کھل کر انگریزوں کی مخالفت اور بہادر شاہ ظفر کی حمایت کرنے لگا لیکن جنگ آزادی کی ناکامی اور مغلیہ سلطنت کی تاراجی کے ساتھ بالآخر اس اخبار کی زندگی بھی 13ستمبر 1857 کو ختم ہو گئی۔
دہلی اردو اخبار کے مالک و مدیر مولانا محمد باقر ،شیخ ابراہیم ذوق کے ارادت مندوں میں تھے، وہ علم وفضل میں ہی یکتا نہ تھے بلکہ دربار شاہی میں بھی انہیں بڑا عمل دخل حاصل تھا۔ پروفیسرخواجہ احمد فاروقی نے چندن لال کے روز نامچہ 1857کے اصل نسخہ کا لندن میں مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
”اس میں کئی جگہ مولوی محمد باقر کی باریابی حضور کا ذکر ہے اور ان ہدایات کی صراحت ہے جو انہوں نے بادشاہ کے دستوں کو خزانہ شاہی کی حفاظت کے سلسلے میں دی تھیں۔“
انقلاب 1857 کے دوران سب سے زیادہ جری کردار’دہلی اردو اخبار‘ نے ادا کیا۔ انقلاب کا آغاز 10 مئی کو میرٹھ کے سپاہیوں کی بغاوت سے ہوا۔ 11 مئی کو یہ سپاہی دہلی پہنچے۔ جس کے بعد دہلی شورش و ہنگامے کی لپیٹ میں آگئی۔ 17 مئی کو ہفتہ وار ’دہلی اردو اخبار‘کا شمارہ منظر عام پر آیا تو اس کے صفحات انقلاب کی خبروں سے لبریز تھے۔ یہ اخبار جو متوازن اور بڑی حدتک محتاط لب و لہجہ کا حامل تھا، انقلاب کی فضا کے زیر اثر اس کی احتیاط اور لب و لہجہ کا توازن بگڑ گیا اور اب یہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا اخبار تھا۔ صفحۂ اول پر انقلاب کی خبر کا عنوان اور اس کا ابتدائیہ قرآنی آیات سے شروع ہوا تھا۔ خبر کا عنوان تھا ”قل فاعتبروا یا اولی الابصار“ (عبرت ہے دیکھنے والی آنکھ کے لیے) خبر کے آغاز میں جو قرآنی آیات درج تھیں اور بعد ازاں ایڈیٹر نے اپنی زبان میں جو تمہید باندھی تھی، اس میں خدا کی بزرگی اور برتری کے اعلان اور عزت و ذلت عطا کرنے میں اس کے بے پایاں اور لامحدود اختیارات کے اعتراف کے بعد انسانوں کی غفلت اور گمراہی کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور پھر انگریزوں کی حکومت و طاقت کے خلاف ہونے والے عظیم معرکے کو موضوع بنایا گیا تھا ملاحظہ ہو:
”وہ حکام ظاہر الاستحکام جن کے استقلال حکومت و انتظام کے زوال کا نہ ان کو خیال تھا اور نہ کسی غفال کو وہم و گمان کبھی آسکتا تھا ایک طرفتہ العین میں وہ نمایاں ہوگیا۔“
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اچانک برپا ہونے والے اس انقلاب نے ”دہلی اردو اخبار“ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انھیں یقین نہیں آتا تھا کہ انقلاب برپا ہوسکتا ہے اور وہ فرنگی جو عملی طور پر ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے، اتنے مجبور و بے بس ہوگئے ہیں کہ مشتعل اور بپھرے ہوئے ہندوستانیوں کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچ رہے ہیں۔
دہلی اردو اخبار کے 17 مئی 1857 کے شمارہ میں مذکورہ تمہید کے بعد بغاوت کی ابتداء اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی تفصیل دی گئی تھی۔ رپورٹنگ کا اسلوب معروضی اور ہر واقعات کی جزئیات تک ریکارڈ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ساری معلومات ایڈیٹر نے سلیقے اور محنت سے ترتیب دی تھیں اور واقعات بیان کرنے میں قصہ گوئی کا انداز تھا۔
”11 مئی 57 مسیحائی کو بباعث موسم گرما اول وقت کچہری ہورہی تھی۔ صاحبِ مجسٹریٹ عدالت میں سرگرمِ حکمرانی تھے اور سب حکام اپنے اپنے محکموں میں سرگرم اجرائے احکام تھے اور حکم قید اور حبس سزائے جسمانی و طلبی مجرمین وغیرہ جاری ہورہی تھی کہ سات بجے کے بعد میر بحری یعنی داروغہ پل نے آن کر خبر دی کہ صبح کو چند ترک سوار چھاونی میرٹھ کے پل سے اوتر کر آئے اور ہم لوگوں پر ظلم زیادتی کرنے لگے اور محصول مجتمع کا لوٹنا چاہا۔ میں نے بہ لطائف الحیل ان کو باتوں میں لگایا اور کشتی لب پل کی قفلی کھول دی کہ آگے نہ آئیں۔ وہ لوگ جو آئے تھے انھوں نے محصول گھر سڑک کا اور بنگلہ صاحب سڑک کا کہ واقع سڑک سلیم پور ہے، پھونک دیا ہے۔ صاحب سن کر متامل ہوئے اور اٹھ کر جنٹ مجسٹریٹ کے پاس کہ دوسرے کمرے میں اجلاس کرتا تھا، چلے گئے اور کچھ غٹ پٹ کرکے خزانے کے کمرے میں گئے اور صاحب خزانے سے مصلحت کرکے گارڈ متعینہ خزانہ کو حکم کمر بندی دیا، انھوں نے فی الفور حسب الحکم گولیاں بندوقوں میں بھر لیں اور تیار ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں سنا کہ قلعہ دار و بڑے صاحب و ڈاکٹر صاحب و میم لوگ وغیرہ دروازے میں مارے گئے اور سوار قلعے میں چلے آئے۔ حضور اقدس بھی دستار مبارک زیب سر اور شمشیر ولایتی زیب کمر فرماکر تشریف فرمائے دربار ہوئے اور دریا گنج کے انگریزوں کو مارتے ہوئے اور دو بنگلا جلاتے ہوئے پیش اسپتال زیر قلعہ آئے۔“
”کہتے ہیں کہ بڑے صاحب و قلعہ دار و ڈاکٹر وغیرہ انگریز کلکتہ دروازے پر کھڑے ہوئے دوربین لگائے سڑک میرٹھ کا حال دریافت کررہے تھے کہ دو سوار آئے ان میں سے ایک نے تپنچہ اپنا جھاڑا اور ایک انگریز کو ما رگرایا اور باقی جو بچ کر آئے حسب تحریر مذکورہ الصدر دروازہ قلعہ میں آکر مارے گئے۔ اور پھر اور سوار بھی آ پہنچے اور شہر میں غل ہوگیا کہ فلاں انگریز وہاں مارا گیا اور فلاں انگریز وہاں پڑا ہے۔ راقم آثم بھی یہ چرچہ دیکھ کر اور آواز بندوقوں کی سن کر بہ پاس دین و حمیت اسلام اپنے کلبہ احزاں سے باہر نکلا تو بازار میں عجیب عالم دیکھا کہ جانب بازار کشمیری دروازے سے لوگ بے تحاشہ بھاگے چلے آتے ہیں مگر چوں کہ حقیر کو تفریح طبع اور پاس خاطر اپنے ناظرین کا جانِ عزیز سے عزیز تر تھا۔ لہٰذا بے تکلف واسطے دریافت حال کے سیدھا اسی طرف روانہ ہوا کہ زیر کوٹھی سکندر صاحب پہنچ کر ایک آواز بندوقوں کی باڑ کی سامنے سے سنائی دی۔ آگے چلا تو دیکھا کہ صاحب بہادر جیو پیدل شمشیر برہنہ درکف سراسیمہ و بدحواس بے تحاشہ بھاگے چلے آتے ہیں اور پیچھے پیچھے ان کے چند تلنگے بندوقیں سر کرتے چلے آتے ہیں اور عوام شہر بھی کسی کے ہاتھ میں لکڑی اور کسی کے ہاتھ میں پلنگ کی پٹی کسی کے ہاتھ میں بانس کا ٹوٹا اوس کے درپے چلے آتے ہیں۔“
اسی طرح 24 مئی کے شمارے میں شمالی ہندوستان کے کئی اور مقامات اور دہلی کے حالات غدر پیش کیے گئے ہیں۔ان میں کول، بلند شہر، کانپور، لکھنو، آگرہ، جھجر، سکندرہ، غازی آباد، بلب گڑھ، میرٹھ رُہتک اور کرنال شامل ہیں۔ اسی شمارے میں صفحہ اوّل پر مولوی محمد باقر کے فرزند مولوی محمد حسین آزاد کی نظم ”تاریخ انقلاب عبرت افزا“ ملتی ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:
ہے کل کا ابھی ذکر کہ جو قومِ نصاریٰ
تھی صاحب اقبال و جہاں بخش و جہاندار
تھی صاحب علم و ہنر و حکمت و فطرت
تھی صاحب جاہ و حشم و لشکر جرار
اللہ ہی اللہ کہ جس وقت کہ نکلے
آفاق میں تیغ غضب حضرت قہار
سب جوہر عقل ان کے رہے طاق پہ رکھے
سب ناخن تدبیر و خرد ہوگئے بیکار
کام آئی نہ علم و ہنر و حکمت و فطرت
پورب کے تلنگوں نے لیا سب کو یہیں مار
یہ سانحہ وہ ہے کہ نہ دیکھا نہ سنا تھا
ہے گردش گردوں بھی عجب گردش دوّار
اس جنگ کی شخصی رپورٹنگ کرنے کے علاوہ مولوی محمد باقر بہادر شاہ ظفر کے ایک معاون کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی تالیف ”تاریخ عروجِ سلطنت انگلشیہ ہند“ میں لکھا ہے کہ ظفر کے حکم سے وہ مال گزاری کے اس شاہی خزانے کو کامیابی سے باحفاظت لے کر آئے جو پیدل فوج کی ایک پلٹن چند سواروں کے ساتھ گڑ گاؤں سے دہلی لا رہی تھی اور جس پر راستے میں تین سو میواتیوں سے مڈبھیڑہونے کے بعد لڑائی ہورہی تھی۔ اس کے لیے وہ بہادر شاہ کی ہدایت پر امدادی فوجی سپاہ کو ساتھ لے کر گئے تھے۔
مولوی محمد باقر کے ایسے کارناموں سے خوش ہوکر بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی مناسبت سے ان کے اخبار کا نام ”اخبار الظفر“ کردیا جس کا اعلان 12 جولائی 1857ء کے شمارے کے سرورق پر ہوا اور اس اخبار کے آخری دس شمارے اسی نام سے شائع ہوئے۔
دہلی اردو اخبار نے اپنے صفحات پر نہایت ولولہ انگیز تقریریں شائع کیں۔ یہ تقریریں مجاہدین آزادی کے حوصلوں کو مہمیز کرنے والی تھیں۔ ایک ایسی ہی تقریر میں مجاہدین نے کہا تھا:
”یہ معرکہ تمہارا بھی تو اریخوں میں یاد رہے گا کہ کس بہادری اور جواں مردی سے تم نے ایسی اولوالعزم اور متکبر سلطنت کے کبر و غرور کو توڑا ہے اور ان کی نخوت فرعونی اور غرور شدادی کو یکسر خاک میں ملا دیا ہے اور ہندوستان کی سلطنت کو جس پر بڑے بڑے بادشاہوں کا دانت تھا اور ان سے (انگریزوں سے) نہ لے سکتے تھے۔ تم نے اون کے قبضہ اقتدار سے نکال لیا اور رعائے ہندوستان کو کہ بلائے ناگہانی میں آگئی تھی اس مصیبت سے نجات دی۔“
1857 میں ’دہلی اردو اخبار‘کے غیر معمولی کردار کے بارے میں مولانا امداد صابری رقم طراز ہیں:
”دہلی میں جب تک جنگ جاری رہی اس وقت تک دہلی اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات آزادی کو کامیاب کرنے کے لیے وقف کررکھے تھے۔ بلکہ اس کے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے جنگ لڑی اور جس وقت جنگ میں ناکامی ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہوگیا تو اخبار بند ہونے کے ساتھ مولانا محمد باقر انگریز کی گولی کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا۔“
شہادت کا منظر
مولوی محمد باقر کے نواسے آغا محمد باقر نے خاندانی روایت کے حوالے سے اپنے نانا کے آخری ایام کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔
”خاندانی روایت یہ ہے کہ مولانا آزاد (محمد حسین آزاد) سردار سکندر سنگھ کے پاس کشمیری دروازے چلے آئے اور سردار بہادر سے بصد منت سماجت التجا کی کہ میں اپنے شفیق باپ کی آخری بار زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ سردار بہادر نے جواب دیا۔ حالات بہت خطرناک ہیں، آپ کا دہلی میں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن آزاد نہ مانے آخر سردار صاحب راضی ہو گئے۔ قرار پایا کہ آزاد ان کے ساتھ سائیں کا لباس پہن کر چلیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے اور آزاد سائیں کے لباس میں ان کے پیچھے بھاگے۔ دہلی دروازے کے پاس میدان میں ایک ہجوم نظر آیا۔ جو دن کی دھوپ سے نڈھال تھا فوجی پہرے میں وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے تھے۔ اس ہجوم میں ایک طر ف ایک مردِ خدا نہایت خشوع و خضوع سے اپنے پروردگار کی عبادت میں محو تھا۔ وہ آزاد کے شفیق باپ مولوی محمد باقر تھے۔آزاد گھوڑے کی باگ تھامے فاصلے پر کھڑے اور منتظر تھے کب آنکھیں چار ہوں۔ مولوی صاحب نے نماز ختم کرکے نظر اٹھائی تو سامنے اپنے پیارے بیٹے کو پایا ۔ چہرے پر پریشانی کے آثارپیدا ہوئے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گذری۔ انہوں نے دعا کےلئے فوراً ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی اشارہ کیاکہ بس آخری ملاقات ہو چکی۔ اب رخصت۔ سردار صاحب نے اپنا گھوڑا موڑ لیا اور واپس چلے آئے۔“
آغا محمد باقر کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کو جنرل ہڈسن نے اس وقت گولی نہیں ماری تھی جب وہ پرنسپل ٹیلر کا سامان لے کر گئے تھے بلکہ مولوی محمد باقر کی شہادت کا واقعہ انہیں حراست میں لینے کے بعد کا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ مولوی محمد باقر کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلا اور نہ ہی انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا گیا بلکہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے انہیں 77 سال کی کبر سنی میں نہایت سفاکی سے 16 ستمبر 1857 کو شہیدکر دیا گیا ۔ ؏
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی