گزشتہ دو برس میں اس کوشش سے 100 بچے اب باقاعدہ اسکول جانے لگے ہیں،اس سال 69 بچوں کو داخلہ دلایا گیا ہے
نئی دہلی: ( پریس ریلیز) دیہی معاشرے میں عام طور پر بے سروسامانی کے عالم میں روزگار کی تلاش میں دیہات سے شہرکی جانب رخ کرنے والے خاندانوں کو ترقی پذیر سمجھا جاتا ہے ، پیچھے چھوٹ گئے ان کے قریبی رشتہ دارانہیں حسرت کی نگاہ سےدیکھتے ہیں ۔ لیکن ترقی کے اس سفرمیں ان کی آئندہ نسلوں کوکن کن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ ہم اور آپ ہرگزنہیں لگا سکتے اس کا تجربہ کنچن کنج واقع ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ کی کو آرڈینیٹر روزش کو جتنا ہے شاید بچوں کے حقیقی والدین کو بھی نا ہو ۔
ایک دن کنچن کنج ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’میں گزاریں، پھر دیکھیں
جامعہ نگرابوالفضل ,شاہین باغ سے متصل کنچن کنج کا یہ علاقہ یوپی ، بہار ، بنگال اورآسام کے ان مزدور پیشہ افراد کا ہے جو گلی محلوں سے کباڑ جمع کرتے ہیں، غبارے بیچتے ، تعمیراتی پروجیکٹوں ، گلاس فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی اپنے والدین کے نقش قدم پراس دلدل میں پھنسے جاتے ہیں ۔ روزش کون ہیں ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ یہاں کیا کام کرتا ہے اورابتک اس سینٹر نے اس علاقے میں کیا کام کیا ہے، یہ سب جاننے کے لیے ایک دن آپ کنچن کنج ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’میں بچوں کے درمیان ضرور گزاریں، پھر دیکھیں ۔
یکم فروری 2018 کوکنچن کنج میں ایک کمیونٹی ایجوکیشن سینٹرشروع کیا
آج سے کوئی تین سال قبل ایک ریٹائرڈ انجینئرفرید عالم نے کنچن کنج میں رہائش اختیارکی ،انہوں نے دیکھا کہ یہاں زیادہ تر بسنے والے چھوٹےکام کرنےوالے مزدور پیشہ افراد ہیں ان کی روز مرہ کی معاشی کشمکش نے ان کی سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کردیا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ پسماندگی کے جس دلدل میں آج وہ پھنسے ہوئے ہیں ان کی آئندہ نسلیں بھی کوڑے کے ڈھیرپر کھڑی نظر آرہی ہیں ۔ اس صورت حال نے فرید عالم کو بے چین کر دیا انہوں نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد تبدیلی کا منصوبہ ترتیب دیا اور اسے عملی جامہ پہنانے نکل پڑے ۔ سماجی تنظیم ‘سب کی سیوا’ اور ‘ہیومن ویلفیر فاونڈیشن’ کے اشتراک سے یہاں یکم فروری 2018 کو ایک ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ شروع کیا ، تاکہ مزدوروں کی نئی نسلوں کو تعلیم سے جوڑا جاسکے ۔ ان کی اسی بے لوث خدمت کی وجہ سے کنچن کنج کی گلیوں کے بچے انہیں ‘ابا’ کہہ کر پکارتے ہیں ۔
گھر گھر جاکر مزدور والدین سے ان کے بچے مانگ کر لانا آسان نہیں
فریدعالم بتاتے ہیں کہ میں خود اور سینٹر کوآرڈینیٹر گھر گھر جاکر مزدور والدین سے ملکرانہیں سمجھا بجھا کران کے بچے مانگ کرلاتے ہیں اورانہیں کمیونٹی ایجوکیشن سینٹرمیں لاکر ان کی وضع قطع درست کرتے ہیں ،ان کی صحت کا روٹین چیک اپ کراتے ہیں ،انہیں صاف ستھرا رہنا سکھاتے ہیں ، ان کے لیے مڈ ڈے میل کا بندوبست کرتے ہیں ، بنیادی اخلاقیات کچھ پڑھنا لکھنا سکھا کرانہیں قریب کے سرکاری اسکولوں میں داخلہ دلاتے ہیں ۔ گزشتہ دو برس میں ہماری اس کوشش سے 100 بچے اب باقاعدہ اسکول جانے لگے ہیں ۔ اس سال 69 بچوں کو داخلہ دلایا گیا ہے ۔ اپنے بچوں کی سرپرستی سے نابلد والدین نےگویا ایک طرح سے ہمارے اس سینٹرکو ہی اپنے بچوں کی سرپرستی سونپ دی ہے ، اوراب یہ سینٹر ہی بچوں کی پوری سرپرستی کرتا ہے، داخلے کے لیے اسکول سے رابطہ کرنا ، آدھارکارڈ ، بیان حلفی سمیت ضروری کاغذات بنوانا اور پھر اسکول لے جا کر داخلہ دلانا ، جن سبجیکٹ میں بچے کمزور ہیں اس کی ٹیوشن کرانا یہ ساری ذمہ داری ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ اٹھاتا ہے ۔
UNDP کے طے شدہ ہدف کو پورا کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش
پروجیکٹ انچارج ظہور احمد بتاتے ہیں کہ بچوں کو ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ لانے سے لیکر اسکول میں داخل کرانے تک کا مرحلہ دشوار گزار ضرور ہے لیکن اس کوشش کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں رفتہ رفتہ بچوں کے والدین کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ ہم ان کا مستقبل سنوارنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں ۔ حالات بدل رہے ہیں لیکن چیلجنج اب بھی برقرار ہیں بچوں کے والدین سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ چاپتے ہیں کہ آپ کا بچہ بھی وہی کام کرے جو آج آپ کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے نہیں! ہم ہر گزنہیں چاہتے لیکن ہمارے پاس نہ وقت ہے اور نہ وسائل ہم کیا کریں؟ ظہور مزید بتاتے ہیں کہ ہم کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر کے ذریعے UNDP کے طے شدہ اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں سب کے لیےغربت اور بھوک سے آزادی اور سب کے لیے صحت ، معیاری تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے ۔
بچوں کو اسکول ڈراپ آوٹ سے بچانا ہے اصل کام
ظہور کہتے ہیں کہ ہم اس ہدف کی تکمیل میں حائل سبھی طرح کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ، ہمارے پیش نظریہ بہت اہم ہے کہ اس بات کا جائزہ لیں کہ بچے نے ہمارے ساتھ رہ کرکیا سیکھا ؟ بچوں کو اسکول ڈراپ آوٹ سے بچانے کے لیے انہیں الگ سے ریاضی ، سائنس اور زبان کی ٹیوشن دے کرمیں اس قدر قابل بناد یا جاتا ہے تاکہ بچے کو پڑھنے سے دل چسپی پیدا ہوجائے اوراسکول میں داخل ہونے کے بعد بچہ پڑھنے سے جی نہ چرائے ۔
کنچن کنج ایجوکیشن لرننگ سینٹر مہاجر مزدوروں کے لیے ایک امید کی کرن
کنچن کنج کا یہ ‘کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر’ مسائل سے دوچار مہاجر مزدوروں کے لیے ایک امید کی کرن بن کر ابھرا ہے ، یہ سینٹرچھوٹے بچوں کی تعلیم تربیت کے ساتھ ساتھ گھروں میں موجود ان کی بڑئ بہنوں کے لیے بھی کام کر رہا ہے ، یہاں سلائی سینٹر سے جوڑ کر بچیوں کو سلائی کڑھائی ٹریننگ دی جا رہی ہے ۔ وزن 2026 کا یہ کمیونٹی لرننگ سینٹر دہلی ،کولکاتا اور ہریانہ میں بھی چل رہا ہے ، جہاں ایسے غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم سے جوڑنے کا کام انجام دیا جا رہا ہے ۔ ہیومن ویلفیر فاونڈیشن کا یہ عمل قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی ، یہ تبھی ممکن ہوا جب فرید عالم جیسے بے لوث سماجی خدمت گارکو ہیومن ویلفیر فاونڈیشن جیسی این جی او کا ساتھ ملا ۔ آپ بھی اپنے آس پاس نگاہ اٹھاکر دیکھیں جہاں کہیں بھی اس طرح کے مسائل ہیں وہاں فرید عالم جیسے لوگ ضرورمل جا ئیں گے، کنچن کنج کمیونٹی ایجوکیشن سینٹر کے کامیاب تجربات ہمیں جہد مسلسل کی ترغیب دیتے ہیں ، یہ بتاتے ہیں کہ تبدیلی آئے گی بس شرط یہ ہے کہ میدان اترنا ہوگا ، کیا آپ تیار ہیں ؟