قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے علماء، ائمہ، اساتذہ، تعلیم یافتہ خواتین اور گارجین حضرات کو متوجہ کیا!
پٹنہ: (ملت ٹائمز) قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے اپنے ایک بیان میں بنیادی دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے امت مسلمہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود دین و شریعت کا اس قدر علم سیکھے اور اپنی نسلوں کو سکھائے کہ زندگی کے ہر مرحلہ میں دین و شریعت کے مطابق زندگی گذار سکے۔ مگر عام طور پرمسلمانوں کی موجودہ ذہنی وفکری سوچ اور سماجی و معاشرتی زندگی میں عملی طور پر زمین وجائداد ، مکان و دوکان اورجاہ و منصب کی جو اہمیت ان کے نزدیک ہے وہ دینی تعلیم کو ہر گز نہیں۔ اس کی وجہ سے امت کا ایک بڑا طبقہ دین و شریعت سے دور ہو تا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ دینی تعلیم سے بے بہرہ لڑکے و لڑکیوں کا کچھ حصہ فکری ارتداد کا شکار ہو رہا ہے۔ خاص کر امت کی 95 فیصد آبادی جو اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے، دینی تعلیم سے بیگانہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکاری اور دیگر جنرل اسکولوں کے علاوہ مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے اکثر اسکولوں میں بھی دینی تعلیم کا کوئی مناسب نظم نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جولوگ دین و شریعت کا علم رکھتے ہیں وہ ان مردوں ، عورتوں ، لڑکے و لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کی فکر کریں، جو بے علمی کی وجہ سے نہ صرف جہالت اور بد دینی میں ڈوبے ہوئے ہیں، بلکہ ارتداد کے کنارے کھڑے ہیں۔لہٰذا اس وقت بنیادی دینی تعلیم کے ایسے نظام کی سخت ضرورت ہے جو ہرمحلہ اورقصبہ میں ہو او رجہاں مسلمانوں کو دین کے مبادیات سے واقف کرایا جائے اور ان کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دی جائے تاکہ وہ حلال وحرام سے واقف ہوسکیں، کفر و ایمان اور توحید و شرک میں فرق کرسکیں۔ سماج کے ہر بچے کو بنیادی دینی تعلیم فراہم کرنا امت کے با شعور اور فکر مند لوگوں کی قومی و ملی ذمہ داری ہے ۔ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں بڑے چھوٹے تمام مدارس بند ہیں ، اور مستقبل میں مدارس اسلامیہ کی راہ میں دشواریاں آسکتی ہیں اور فرقہ پرستوں کی نگاہ جس طرح ان تعلیم گاہوں پر ہے، ایسے وقت میں ابتدائی مکاتب کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم اس سلسلہ میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمان پہلی فرصت میں دینی مکاتب کے قیام کے سلسلہ میں عملی اقدام کریں اور حضرت والا کی فکر ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے ملکی حالات میں نئی نسل کو دین پر باقی رکھنے کے لیے مکاتب کے نظام کو فروغ دینا اور اس کو منظم و مؤثر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے، ضروری ہے کہ اہل علم ودانش ، اصحاب فکر اور دینی و ملی خدمات سے وابستہ لوگ تحریکی شکل میں گاؤں گاؤں میں مکاتب کا جال بچھا ئیں تاکہ قوم کا کوئی بچہ اور بچی دین و شریعت سے بیگانہ نہ رہے او ر مسلم معاشرہ اس ارتدادو الحاد و دین بیزاری کی تیز و تند ہوا سے بچ سکے اور دین سے بیزاری کی منظم سازش کا حصہ نہ بن پائے۔ اسی فکر کے پیش نظر امار ت شرعیہ کی مجلس عاملہ منعقدہ 29 نومبر 2020 کو بنیادی دینی تعلیم کی فروغ و اشاعت پر خصوصی مذاکرہ ہوا اور طے پایا کہ امارت شرعیہ کے خود کفیل نظام تعلیم کی تحریک کو پھرسے بڑے پیمانے پر عام کرنے پر توجہ دی جائے۔ مجلس عاملہ میں اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اہم تجاویز پاس ہوئیں۔
(الف) دینی مکاتب کے قیام کے سلسلہ میں عوام میں بیداری پیدا کی جائے ، اس کے لیے دیگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ نقیب، نائب نقیب، ضلع و بلاک کی تنظیم کے ذمہ داران، ارکان شوریٰ و عاملہ ، ارباب حل و عقد امارت شرعیہ ، قضاۃ کرام، علماء کرام اور ائمہ مساجد سے مدد لی جائے ۔
(ب) علاقہ کے بڑے مدارس اپنے وسائل کے اعتبار سے اپنے زیر اثر علاقوں میں دینی مکاتب کے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے کی طرف خصوصی توجہ دیں، اور ممکنہ حد تک اس نظام کو مؤثر و مفید بنانے کے لیے عملی اقدام کریں۔
(ج) مکاتب کے نظام کو فروغ دینے میں وسائل کے اعتبار سے امار ت شرعیہ کا تیار کردہ خود کفیل نظام تعلیم کو آبادیوں میں رائج کیا جائے تو مکاتب کے معلمین کی تنخواہ وغیرہ کے سلسلہ میں سہولت پیدا ہو گی ، اور اس کام کو آگے بڑھانے میں قلت وسائل کا شکوہ نہیں ہو گا۔
اس تجویز کی روشنی میں قائم مقام ناظم صاحب نے علماء، ائمہ، اساتذہ، ملی اور تعلیمی خدمت گاروں، تعلیم یافتہ خواتین اور گارجین حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس کے علاقہ کے بچوں کی دینی تعلیم کی فکر کریں اور ایسا انتظام کریں کہ مکتب کا خود کفیل نظام قائم ہو جائے ، جہاں بچوں کو قرآن، وضو و نماز کا طریقہ ، کلمہ ، غسل کے فرائض و مستحبات،مختلف مواقع کی مسنون دعائیں، نماز جنازہ اور روزہ، حج زکواۃ کی ابتدائی معلومات، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی مختصرسوانح، طہارت کے ضروری احکام و مسائل وغیرہ کی تعلیم دی جاسکے اور ساتھ ہی ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا جائے، اسکولی بچوں کی دینی تعلیم کے لیے بھی فکر مندی ضروری ہے، اسکولوں میں پڑھنے والے لڑکے و لڑکیوں کے لیے علاحدہ علاحدہ مقامی مسجد/ مکتب/ مدرسہ دینیات کے کوچنگ سنٹر/ اسکول میں خصوصی نظم کرکے انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ ائمہ کرام، مصلحین قوم و ملت اپنے خطاب میں بنیادی دینی تعلیم کی اہمیت پر تسلسل کے ساتھ خطاب کریں، انہیں بتائیں کہ نئی نسل کی دینی اور اخلاقی بہتری کا واحد راستہ بنیادی دینی تعلیم کا حاصل کرنا ہے اس کے بغیر ہم اپنے بچوں کو صحیح مسلمان باقی نہیں رکھ سکتے،نیز محلہ اور گاؤں کے اہل خیر او ر اہل علم و فکر کے ساتھ مکتب کے نظام کی بحالی کے لیے میٹنگ کریں اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔