آل انڈیا ملی کونسل کی آن لائن ویب نار میں دانشوروں کا اظہار خیال
پھلواری شریف: (پریس ریلیز) کل 18 دسمبر کو ” عالمی یوم اقلیتی حقوق “ کے موقع پر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے اورکونسل کے نائب قومی صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی کی صدارت میں آن لائن ویبنار کا انعقاد کیا جس کا عنوان ” ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل اور اس کا حل “ تھا، اس آن لائن ویب نار میں گجرات، دہلی، بہار اورجھاکھنڈ کے علاوہ مختلف ریاستوں سے اہل علم اوردانشوروں نے شرکت کی، اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، یہ آن لائن نشست زوم ایپ پر شام 6/بجے سے پونے 8 تک جاری رہی اس نشست کا آغاز ملی کونسل بہار کے جنرل سکریٹری مولانا محمد عالم قاسمی صاحب کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
اس موقع پر اپنی صدارتی خطاب میں آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے فرمایا کہ دستور ہند میں دئے گئے اقلیتوں کے حقوق اور ان کے جانی، مالی، اقتصادی، مذہبی اورتعلیمی مسائل سے ہم سب واقف ہیں، ہمارے مسائل زیادہ تر حکومتوں کی ناروا پالیسوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں خواہ انگریزوں کا عہد ہویا پچھلے ستر بہترسالوں کی بات کی جائے جتنے بھی مسائل پیدا ہوئے اس میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا ہے، کچھ پارٹیاں اورتنظیمیں خفیہ طریقے سے اقلیتوں کے خلاف ریشہ دوانی کرتی رہتی ہیں اور کچھ کھلے عام، اس لئے ضرورت ہے کہ اکثریتی طبقہ سے تعلقات اورمیل جول کو بہتر کیا جائے اور انہیں اپنے حقوق سے باخبر کیا جائے، اسی طرح تمام ملی تنظیموں کے درمیان مضبوط اورمستحکم رشتہ ہونا چاہئے؛ تاکہ ظلم کے خلاف اورحقوق کی بحالی کے لیے مضبوط آواز اٹھائی جاسکے، میراتجربہ ہے کہ اگر حکومت کے سامنے مطالبات پوری قوت سے رکھے جائیں تو یہ ضرورپورے ہوتے ہیں، اس سلسلے ہمارے علماء، دانشوروں اورصحافیوں اور سماجی کارکنوں کو کھل کر میدان میں آنا ہوگا، انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کی بھی ضروت ہے کہ ملک کی دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ محاذ بنایا جائے اور تمام اقلیتوں کے مسائل اس پلیٹ فارم سے پوری مضبوطی سے اٹھایا جائے، اگر ایسا ہوا تو امید ہے کہ یہ ایک مؤثر پلیٹ فارم ہوگا، اورانہوں نے مزید کہاکہ سیرت نبوی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اکثریتی طبقے سے اپنے تعلقات استوار کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ جانی ومالی نقصان کی حفاظت اور دیگر حقوق کے حصول کے لیے اپنی کوشش ومحنت کو تیز کریں۔
جب کہ مولانا محمد عالم قاسمی نے کہا کہ اقلیت اور اکثریت میں ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتیں صحیح نہج پر کام کریں، کیوں کہ بہت دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹی بھوٹی جماعیتں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہے جس ذکر خود اللہ نے قرآن کریم کیا ہے۔ مشہور سماجی کارکن اورصحافی جناب شاہنواز بدرقاسمی نے کہا کہ بد قسمتی سے ہماری موجودہ بہارحکومت نے اقلیتی طبقے کا کوئی وزیر نہیں ہے گوکہ وزارت اقلیتی فلاح ضرور ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ طویل منصوبہ بندی کے ساتھ اقلیتوں کے مسائل ریاستی، قومی اوربلاک کی سطح پر حل کرانے کی کوشش کی جائے، اس موقع پر مشہور صحافی اورمصنف خورشید انوار عارفی نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے، اس ملک کا ہر شہری آزاد ہے یہاں کی اقلیتوں کو بھی اپنی زبان،کلچراورمذہب کی تبلیغ اورتعلیمی ادارے کھولنے کا مکمل حق حاصل ہے، ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تعلیمی ترقی پر توجہ دیں اور دستور ہند میں دئے گئے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہیں،دستور ہند بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مشہور عالم دین مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی جو ان دنوں بنگلور میں تشریف رکھتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ اس ملک کی بقاء اس ملک کے دستورمیں مضمر ہے، جس دن اس ملک کا آئین ختم ہوجائے گا،اس دن اس ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی؛ اس لیے ضروری ہے کہ دستور کے خلاف ہو رہی کوششوں کو روکنے کے لیے ملک کی تمام اقلیتیں مل کر جد جہد کریں۔ کیوں کہ اس ملک کا دستوربڑا خوبصورت ہے اور اس نے ہر شہری کو برابر کا حق عطاکیے ہیں، اس کے لیے مختصرمدتی وطول مدتی منصوبہ بناکر کام کیا جائے۔ گجرات کے مشہور عالم دین مولانا اقبال احمد پٹنی نے کہا کہ ہمارا دستور پوری دنیا میں ممتاز مقام رکھتا ہے جس نے تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں اوراسی دستور نے اس ملک کو مختلف مذاہب کا سنگم بنائے رکھا ہے، لہٰذ اس دستور کے مطابق کام کرانا چاہئے اور تعلیمی طور پر مسلمانوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ جمعیت علماء بہار کے ناظم اعلیٰ جناب حسن احمد قادری نے کہا کہ اقلیتوں کے مسائل اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اس کے لیے ہر سطح پر مشترکہ کوشش کریں، غیرمسلموں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیا جائے اورمنظم کوشش کی جائے۔ ڈاکٹرمفتی عبید اللہ قاسمی دہلی نے کہاکہ ملک میں اقلیتوں پر مظالم بڑھتے جارہے ہیں، ان کاسیاسی اور سماجی طورپر استحصال ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ مسلم اقلیت سیاسی طور پر مضبوط ہو، سیاسی طاقت اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے۔ آن لائن ویب نارکی نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگو میں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے کاگزارجنرل سکریٹری محمد نافع عارفی نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی آواز سب سے پہلے 1814ء میں آسٹیریا کی راجدھانی ویانہ میں ہونے والے کانفرنس کے بعد اٹھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ جرمن میں آباد یہودیوں کے حقوق تسلیم کئے جائیں پھر 1856ء میں پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں خلافت عثمانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کے زیر اقتدار ممالک میں آباد یہودیوں اور عیسائیوں کو خاص حقوق دئے جائیں اوران اقلیتوں کو قانونی تحفط فراہم کیا جائے اسی طرح 1878ء میں برلن سے یہ مطالبہ زوروشور سے اتھا کہ رومانیہ،سربیااوربلغاریہ میں آباد یہوداقلیتوں کو قانونی تحفظ اور قانونی طور پر حقوق عطا کئے جائیں اور پھر دھیرے دھیرے مختلف حلقوں سے یہ آواز بلند ہونے لگی، یورپین یونین اوردیگر تنظیموں نے بھی اقلیتوں کے حقوق کی آوازیں بلند کیں، گویا یہ ایک خاص اصطلاح 1814 سے پہلے ناپیدتھی۔ اسی اصطلاح کے بطن سے حقوق اطفال، عورتوں کے حقوق، انسانی حقوق کی اصطلاحوں نے جنم لیا، اب اقلیتوں کے حقوق بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ قانون ہے مختلف ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون بنائے ہیں، اقلیتیوں کے حقوق کو نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں پر کے لیے ہیں، یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا لازمی جز ہے، بچوں کے حقوق،خواتین کے حقوق اورمہاجرین کی ہی طرح اقلیتوں کے حقوق کا ایک فریم ورک بنایا گیا ہے تاکہ معاشرے میں اسے جائز حق دلایا جا سکے، اقوام متحدہ کا آرٹیکل 27/قومی، نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے متعلق حقوق کا اعلامیہ ہے جس میں اقلیتوں کے تئیں اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے۔
اس ویبنار میں جماعت اسلامی بہار کے سکریٹری جناب ضیاء القمر صاحب، جناب وسیم احمد دہلی، مولانا رضاء اللہ صاحب وغیرہ میں شرکت کی۔
آل انڈیا ملی کونسل نے پورے ملک کی اقلیتوں سے خاص طورسے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ” عالمی یوم حقوق اقلیت “ کے موقع پر خصوصی مجلسیں منعقد کریں اور اپنی تجاویز آئینی اداروں کو بھیجیں۔
اس موقع پر ائمہ کرام کے نام مکتوب روانہ کیا تھا نیز اخبارکے ذریعے بھی ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی گئی تھی کہ اس جمعہ میں اپنی تقریر کا موضوع ”ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق“کو بنائیں الحمد اللہ اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور مختلف مساجد میں اس موضوع پر تقریریں ہوئیں۔خاص طور پر پٹنہ کے دریاپور اور فقیروارہ کی مسجد، داناپور کے شگونہ اور پھلواری شریف کی مساجد کی تقریریں قابل ذکر ہیں۔