محمد سیف اللہ
ملت ٹائمز
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دیر تک جن کے نشاں کبھی
سچ کہتے ہیں کہ علم وعمل اور تہذیب وثقافت کی پاکیزگی یہ وہ امتیازی خوبیاں ہیں جو آدمی کو سماج کے ہر طبقے میں ہمیشہ باوقار بنائے رکھتی ہیں ،اس وقت ہمارا ملکی سماج جس بے ترتیبی کا شکار ہے وہ یقیناًافسوسناک ہے اور ملک کے موجودہ منظرنامے کو سامنے رکھ کر اگر آپ پوری ایمانداری اور احساس ذمہ داری کے نظرئے سے دیکھیں توکسی غریب کو اپنا حق ماننے پر موت کی نیند سلادیا جانا ،یا اسکول میں کام کرنے والی کسی بیوہ عورت کو باورچی کے عہدہ سے نکال دیا جانا موجودہ وقت کے لحاظ سے کوئی ایسا عجوبہ واقعہ نہیں تھا، جس پر تبصرے کی گنجائش ہوتی یا اسے گفتگو کا عنوان بنا کر اس پر بحث کی راہ نکالی جاتی ،کیونکہ آئے دن اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات اخبارات کی سرخیوں میں رہ کر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے اور انہیں اپنے کردار کا محاسبہ کر نے کی دعوت دیتے ہیں اور نہ معلوم کتنی بیوائیں روز دن معاشرہ کے ظالمانہ رویہ کی بھینٹ چڑھ کر جیتے جی موت کی دہلیز تک پہنچ کر اپنی قسمت کا ماتم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ،مگر اب سے کچھ دن قبل گوپال گنج کے ایک اسکول میں اس قسم کا واقعہ سامنے آنے کے فورا بعد چمپارن کی دھرتی کے مایہ ناز سپوت اور شاید بہار کے سب سے کم عمر ڈی ایم راہل کمار نے اپنے عہدے کی لاج رکھتے ہوئے جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور اس حوالے سے ان کی جو فکر مندی ابھرکر سامنے آئی وہ یقیناًایک ایسا واقعہ ہے جس کو تاریخ کے ہر دور میں یاد کیا جاتا رہے گااور میں سمجھتا ہوں کہ اس پر جتنا کچھ لکھا جاتا رہے کم ہے،راہل کمار کے اس ہمدردانہ و مخلصانہ کردار نے عالمی سطح پر ہر خاص وعام کو کس قدر متاثر کیا اور انسانی برادری پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا اندازہ بس اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ واقعہ کو کئی روز گزر جانے کے باوجود اب تک ہر چہار جانب سے راہل کمار کے اس بے باک و جرات مندانہ عمل کے لئے مبارکبادیوں نیک تمناوں اور حوصلہ افزائیوں کا نہ صرف لامحدود سلسلہ جاری ہے بلکہ ان کے اس عمل کو سماج کے ہر طبقے میں سند بنانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے ساتھ ہی معاشرہ کے مختلف شعبوں سے جڑے با اثر افراد کی تحریروں کے ذریعہ بظاہر ہر طبقہ کو یہ بتانے کا بھی سلسلہ جارہی ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں بیوہ کے لئے اس نظریہ کی کوءِی جگہ نہیں جو آج تک ان کے ساتھ برتا جاتا رہا ہے ،اس لئے کہ اگر ایسا ہی ہوتا رہا اور بیوائیں اسی طرح ظلم کا شکار ہوتی رہیں تو پھر اس معاشرے کے پاس خود کو مہذب کہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی بس یہ سمجھ لیجئے کہ راہل نے جو بھی کیا اس کے ذریعہ گویا انہوں نے اپنی خاموش زبان سے سماج کو یہ پیغام دیا ہے کہ
زلفیں سنوارنے سے بنے گی نہ کوئی بات
اٹھئے کسی غریب کی قسمت سنوارئے
اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل کمار نے ڈی ایم جیسے باوقار عہدہ پر رہتے ہوئے فیصلہ کن اور حوصلہ مندانہ انداز میں ایک بیوہ کے لئے جوکچھ بھی کیا اس سے سماج کے ہرطبقے میں ان کے قد کا بڑھ جانا اور ہر خاص وعام کے دل میں ان کے لئے جگہ کا پایا جانا ایک فطری بات ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ اگر سماج میں ایسے چند لوگ ہوجائیں اور وہ سماج کو زندگی کی نئی سمت دینے کا عہد کرلیں تو معاشرے کی بہت ساری خرابیاں پلک جھپکتے دم توڑ سکتی ہیں اور پھر ایسی صورت میں نہ تو دو وقت کی روٹی کے در در بھٹکتے کسی غریب کے لئے کوئی بھید بھاو ہوگا نہ ہی کسی بیوہ کو زندگی کے تلخ تجربات جھیلنے پڑیں گے ، لیکن شاید یہ بات بہت کم لوگ سمجھ سکیں گے کہ بلند اخلاق اور انسانی ہمدردی ہی وہ جوہر ہے جو بسا اوقات انسان کو اتنی اونچائی تک پیونچا دیتی ہے کہ ہر کسی کے لئے اس کی اونچائی کا اندازہ لگانا اور اس کی تہ تک پہونچنا ممکن نہیں ہو پاتا لیکن اسی کے ساتھ سچ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ چیز بھی اسی کو حاصل ہوتی ہے جو مخلص رہنماوں کی رہنمائی وسر پرستی میں حالات کے ہزار تھپیڑے اور زندگی کے تلخ تجربات سے گزر کر اپنی منزل کو پانے میں کامیاب ہوتا ہے اور وہ دشوار گزار راہوں میں اپنے لئے امید کی کرن تلاش کر کے آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے کا ہنر پاتا ہے ،یہی حال چمپارن کے اس مایہ ناز سپوت اور گوپال گنج کے موجودہ ڈی ایم راہل کمار کا ہے ،جو اس وقت اگرچہ اپنے اہم و متاثر اقدام کی بنیاد پر سر خیوں میں ہیں ،مگرآپ کو یاد دلادیں کہ یہ وہ سپوت ہے جس نے مشرقی چمپارن کے گھوڑا سہن میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا ،اورپھر زندگی کی چند بہاریں گزرنے کے ساتھ معصوم عمر سے ہی اپنے والد شمبھو پرساد کی تر بیت میں نویں تک کی تعلیم کا سفر مشکلوں کے سائے میں طے کیا بعد میں رکسول ہائی اسکول سے وابستہ رہ کر اپنے نانا کنہیا لال کی سرپرستی ونگرانی میں میٹرک اور انٹر سے سول سروسز کے امتحان میں کامیابی تک کی تمام سیڑھیاں حالات کے الٹ پھیر کے باوجود اتنے حوصلے اور امنگوں کے ساتھ طے کی جس کے نمونے شاید آج کی تاریخ میں بہت مشکل سے مل سکیں گے ،راہل کمار کی زندگی سے جڑی سچائیاں بتاتی ہیں کہ بچپن کی اے بی سی ڈی سے لے کر سول سروسز کی کامیابی کی منزل تک پہنچنے میں نہ جانے انہیں عام لوگوں کی طرح زندگی کی کن کن دشوار گزار راہوں سے گزر نا پڑااور کیسی کیسی مشکلات ان کے سامنے آئیں مگر یہ ان کا ہی حوصلہ تھا کہ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور کسی جگہ جا کر ٹھہر جانے یا ہمت ہار دینے کی بجائے ہمیشہ اپنی منزل پر نظر رکھی اور بس 22 سال کی عمر میں سول سروسز کے امتحان میں 36 ویں رینک کے ساتھ ایسی زبردست کامیابی حاصل کی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،راہل کمار کی ابتک کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو یہ رہا کہ انہوں نے ہمیشہ عوام کی خدمت کو نہ صرف اپنا فرض سمجھ کر انجام دیا بلکہ ذات پات یا مذہب کی تفریق کو اپنے قریب آنے کا موقع ہی نہ دیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے انکو سماج کے ہر طبقے سے قریب کیا ہوا ہے اور ہاںآج اگر وہ اپنی قابل ذکر خوبیوں کی وجہ سے ہر خاص وعام کے عزیز ہیں اور سبھوں میں ان کا اعتبار و امتیاز قائم ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب اسی تربیت و رہنمائی کا اثر ہے جو والد شمبھو پرساد اور نانا کنہیا لال سے ملی اور جس انسانیت کے راستے پر چلنے کی تلقین ان کے اساتذہ نے کی تھی،خیر اب جبکہ ان کے ایک حکم نامہ سے پچھلے چار سال سے بیوائی کی زندگی گزار رہی گوپال گنج کے برولی گاوں باشندہ 45 سالہ سنیتا دیوی اپنے عہدے پر پھر سے بحال ہو گئی ہیں اور راہل کمار کے بڑے فیصلے سے ان کو اپنے دو بچوں کے ساتھ خوشحالی کی زندگی گزارنے کے مواقع پھر سے حاصل ہوگئے ہیں، اب دیکھنے کی بات تو یہ ہوگی کہ سماج اس کا کیا اثر لیتا ہے،اور کیا سماج میں ایسی بیوہ عورتوں کو ان کے حقوق ملنے کے امکانات روشن ہوسکیں گے جو دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے حقوق کی تلاش میں در در کی ٹھوکڑیں کھا رہی ہیں ،آپ کو یاد دلادیں کہ اب سے کچھ دن پہلے سنیتا دیوی کو بیوہ ہوجانے کی وجہ سے شہر کے دبنگوں کے ذریعہ اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ،جس کے سبب اس کی روزی روٹی کے تمام راستے بند ہوگئے تھے ،مگر راہل کمار جیسے حوصلہ مند ڈی ایم کی نوٹس نے اس کی زندگی کی نئی راہ کھول دی ،قابل ذکر ہے کہ راہل کمار محکمہ صحت کے ڈائرکٹر کے عہدہ سے بہار اسمبلی الیکشن سے قبل گوپال گنج کے ڈی ایم بنائے گئے تھے،اب راہل کمار کی یہ فکر مندی کتنی بیواوں کی زندگی کا رخ بدلے گی یہ تو ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا ،مگر راہل کمار نے جو کیا اس کے لئے بار بار انہیں سلام محبت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔