عبدالغنی
انسانی زندگی مستعار ہے۔ لہذا موت وحیات کا کوئی تاریخ ماہ وسال یا وقت طے نہیں ہے ۔رب قدیر کے حکم کے بموجب دنیا کا نظام قائم و دائم ہے۔ روزانہ لاکھوں زندگیاں وجود میں آتی ہیں۔ اور ہزارہاں لوگ ہمیشہ کے لئے لقمئہ اجل ہوجاتےہیں۔ بسا اوقات دنیا کو خیرآباد کہنے والے شخصیات کے ہم اتنے عزیز یا وہ ہمارے مشفق و محترم ہوتے ہیں کہ ان کا بچھڑنا اکھڑجاتا ہے ۔دل میں ہو اٹھتا ہے۔ ذہن ودماغ سن ہوکر رہ جاتا ہے ۔اور ہم بس ایک سرد آہ بھر کرہ رجاتے ہیں۔ 26 جنوری دوہزار اکیس کی شام ہے شبنم آلود آسمان میں سورج پہلے سے غروب ہے ۔شام کے ڈھلنے اور رات کی ابتدا کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ سرد لہر کے سبب شہر بھی جامد اور ساکت ہے۔ اسی درمیان یہ اندوہناک اور دلدوز خبر موصول ہوئی کہ محترم و مکرم الحاج زیبرالحسن غافل صاحب کا پٹنہ میں انتقال پرملال ہوگیا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ اچانک موت کی اطلاع پاکر میں دم بخود اور ساکت ہوگیا۔ دراصل الحاج زبیرالحسن غافل کی موت غیر متوقع واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہ علیل ضرور تھے مگر معالجین کی نگہداشت میں روبہ صحت ہورہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پٹنہ سے وہ واپس بھی آگئے تھے۔ میری ان دنوں ان سے بات نہیں ہوئی تھی۔ البتہ ان کی طبیعت کی خبریں مختلف حوالہ سے مل جاتی تھیں۔ میں ان کے ارریہ واپسی پرملاقات کے ارادہ میں تھا۔ مگر آہ میں ملاقات سے محروم ہی رہا۔ صوبہ بہار کا حاشیائی خطہ سیمانچل کے ایک انتہائی دور افتادہ گاؤں کملداہا ارریہ میں 27 جنوری 1944 کو ایک متوسط زمیندار گھرانے ظہورالحسن کے یہاں پیداہوئے زبیرالحسن کی زندگی کے شب وروز مثالی اور قابل تقلید رہی ہے۔ وہ عدل قائم کرنے والے جج،ادبی محفلوں میں جان ڈالنے والے صاحب طرز دلنواز شاعراور سماج کے لئے ایک مشفق سرپرست تھے۔ انسانی کمالات اور خوبیوں سے متصف عدل و انصاف کے پیکر حضرت زبیرالحسن غافل کی زندگی کا ہرپہلو روشن ہے۔ جس میں ہرایک کو اپنے لئے کچھ نہ کچھ نظر آتا تھا اور ہرشخص مستفید ہوتے تھے۔ اس میں اہل علم،شعرا و ادبا،علما،اہل مدارس،گاؤں کے ہم سایہ، گاؤں کے ادھیا،شہر کے ضرورت مند، قانونی حاجت مند غرض وہ مرجع خلائق تھے۔ ان کے پاس ہرآنے والا شخص مطمئن ہوکر رخصت ہوتا تھا۔شریف النفسی،خوش اخلاقی اور صلہ رحمی کے نیک جذبہ سے سرشار زبیرالحسن غافل بہتوں کی آس تھے ۔آہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ایک بڑی تعداد ان کے قریب ترین وہ لوگ تھے جو کملداہا اور قرب وجوار کے تھے اور سبھی کو بس یہی لگتا تھاکہ جج صاحب کے ہم خاص ہیں۔
مجھے اپنی پہلی ملاقات ان سے کب کی ہے، یاد نہیں ۔البتہ ملاقاتوں کے سلسلے، ملاقاتوں پہ اصرار اور گاہے گاہے ان کا میرے احوال دریافت کرنا یاد ہے۔کئی ایک مواقع ایسے بھی ہیں جس کا ذکر یہاں بنتا ہے یہی کوئی سال دو سال پہلے ان کے گاؤں کملداہا سے ایک عمر رسیدہ شخص ان سے ملنے کو آئے تھے ۔سردی کا موسم تھا وہ دھوپ سینک رہے تھے۔ آنے والے شخص اکثر آتے تھے لہذا وہ براہ راست دومنزلہ عمارت کے سیڑھیوں سے ان کے بالکونی تک پہونچ گئے ۔اور آتے ہی کہنے لگے میرا یہ کام کروادیجئے کہنے والا شخص مقامی کلہیا بولی میں محو گفتگو تھے ۔جس پر جج صاحب بھی کلہیا میں بات کرنے لگے اور ان سے بیٹھنے کو کہا اور کہاکہ پہلے چائے پی لیجئے پھر آپ کا کام ہوجائے گا ۔اس درمیان وہ اپنے ڈرائیور کو بلوائے مگر وہ نہیں آسکے۔ پھر گھر کے کسی فرد کو بلوایا اور اس بزرگ میاں کو بنک لیجانے کو کہا جب وہ چلے گئے تو ہم نے پوچھا کہ آپ ان کے لئے بے چین ہورہے تھے وہ کہنے لگے کہ گاؤں سے لوگ آتے ہی اس غرض سے ہیں اور پھر وہ بوڑھے تھے اکیلے کہاں خوار ہوتے ۔کئی ایک نششت اور بیٹھک میں لوگوں سے ملاقات کا جو سلیقہ ان میں تھا شاید ہی اب ایسے لوگ ملیں۔ اللہ اتنے خلوص کہ آدمی شرمندہ ہوجائے رواداری اور تواضع کی اعلی مثال تھے وہ۔ ایک موقعہ پر گھر کے لوگوں کے بیچ تھے انہیں معلوم ہوا کہ میں الیاس احمد باوفا مرحوم کا نواسہ ہوں اس پر وہ بے انتہا خوش ہوئے اور حاضرین کو بہت شوق سے بتانے لگے کہ غنی الیاس بھائی کا نواسہ ہے معلو ہے تم لوگوں کو ۔یہ اور اس طرح کے سکیڑوں یادادشت ذہن میں گردش کررہا ہے جو ان کے خلوص کی خوشبو سے گوندھا ہے اور ان کی فرشتہ صفت پیکر کے کینواس کو وسیع ترکررہا ہے۔ ان کی یادیں، باتیں، ان کا زیرلب مسکرانا، ملاقاتیوں سے حسب حال گفتگو کرنا۔عموماً ان کا رویہ سب کے ساتھ مشفقانہ ہوتا تھا ۔مگر ہراس شخص کی ضرور پذیرائی کرتے یا حوصلہ بڑھاتے تھے جن کو ضروری سمجھتے تھے اس میں قرابت یا کوئی اور وجہ نہیں ڈھونڈھتے تھے بس اچھے کرنے والوں کو حوصلہ بڑھاتے تھے۔
آہ کیا ترتیب اور تنظیم کی تھی زندگی کی ان کی۔ زندگی بھر عجزوانکساری کے پیکر بنے رہے۔ طبقاتی درجہ بندی کے بھی بت تراش تھے وہ۔ لہذا وہ تعلیمی سربلندی کے لئے بہت کوشاں رہے ضلع وقف کمیٹی کے صدر بنائے گئے تو اس میں مجھے بھی رکن بنایا گیا تھا وہ اپنے مدت کار میں رہائشی اقلیتی ہائی اسکول کی تعمیر کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہے اس کے لئے وہ ایک مقامی زمیندار کو قائل بھی کرلئے تھے مگر پھر بات مکمل نہیں ہوسکی اور مایوس ہوکر وقف کمیٹی کی صدارت سے ازخود مستعفی ہوگئے۔
تعلیمی پسماندگی پر اکثر اظہار کرب کرتے اور تعلیمی انقلاب کے لئے عملی اقدامات پر زور دیتے تھے جب کہ اکثر دوران گفتگو علما کی بدعملی،ملی اداروں کے ذمہ داران کی بدنیتی اور بے ایمانی کو ملت کی خواری کا سبب بتلاتے تھے ایک موقعہ سے ان کا کہنا تھاکہ”تعلیمی میدان میں اپنا علاقہ پسماندہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ یہ زمیندار اور اس کے مزارع کا علاقہ ہے ان کے ذہن میں تھا کہ پڑھائی کرنے سے کیا ہوگا ۔زمیندار طبقہ تعلیمی طور پر پسماندہ رہا ہے۔ پہلے کے مقابلہ اب تعلیمی بیداری آئی ہے ۔ مسلم بچے پڑھائی سے جی چراتے ہیں ۔انٹر کے بعد ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کھیتی کی طرح ہے اس کو لوگ جوت رہے ہوں جیسے آزاد اکیڈمی ۱۹۶۰ عیسوی میں قائم ہوا تھا اس وقت ابتدائی دور دو تھا اور خوب پڑھائی ہوتی تھی ابھی گراوٹ آئی ہے ۔ہم تعمیری کام کے بجائے مسجد قبرستان خانقاہ اور وقف زمین پر لڑتے جھگڑتے ہیں ۔صورتحال کو بدلنے کے لئے منظم جدو وجہد کی ضرورت ہے ۔مسلم دانشوروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تحریک اٹھنی چاہئے۔تبلیغی جماعت کی طرز پر اب تعلیمی جماعت بھی نکلنی چاہئے تعلیمی اداروں کے منتظمین اور سرکردہ ا فراد کو بے ایمانی کی عادت پڑگئی ہے”
قوم وملت کی سربلندی اور عوام الناس کی خدمت کے علاوہ اردو شعروادب کو بھی انہوں نے مالامال کیا ہے طنزومزاح اور ظریفانہ شاعری کے حوالہ سے وہ ایک معتبر نام ہیں۔ بہار مین ظرافت کو جن شعراء نے معیار اور وقار بخشا ہے ان میں رضا نقوی واہی کے بعد زبیرالحسن غافل کا نام سرفہرست ہے ۔ان کا شعری مجموعہ اجنبی شہر سال 2006 میں شائع ہوا ہے جو ادبی حلقہ میں خوب خوب پسند کیا گیا ہے اور مجموعہ کا دوسرا ایڈیشن 2015 میں بھی شائع ہوا ہے ۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہاراردو ادکادمی نیز دیگر اداروں نے اعزازات سے نوازا ہے وہ ظریفانہ شاعری کے ذریعہ سماجی کرب کا اظہار کرتے تھے اور مٹھاڈھیش پہ بھی نشانہ سادھتے تھے۔ وہ اپنے شعری مجموعہ میں اپنے بارے کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ “اپنے بارے میں کچھ لکھنا بڑاکام ہے لیکن جس طرح کسی دولہا کا اپنے نکاح میں موجود رہنا انتہائی ضروری ہوتا ہے اسی طرح کسی ادیب،مصنف یا شاعر کا اپنے مجموعہ کی اشاعت کے لئے اپنے بارے میں لکھنا اتنا ہی ضروری سمجھاگیا یے”ان کی نظم “ایک گھر اللہ کا” مسجد اقصی کی پکار اور اجنبی شہر شاہکار نظم ہے وہ نظم ونثر کے علاوہ غزل کے بھی ایک کامیاب شاعر تھے ۔جن کے اشعار خوب سے خوب تر ہے۔ وسیع المطالعہ کے سبب ان کی زندگی میں کشادگی تھی لہذا ان کی وسیع القلبی اور وسعت ظرفی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ آج شہر ایک مشفق مربی اور سرپرست سے محروم ہوگیا ہے ۔جو ناقابل تلافی خسارہ ہے۔اللہ رب العزت حضرت الحاج زبیرالحسن غافل رحمتہ اللہ کی بال بال مغفرت فرمائے۔ ان کے جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے۔ آمین۔ ان ہی کے ایک شعر پر اختتام کہ
کوئی کرے نہ ہمارا پیچھا کوئی نہ دے اب ہمیں صدائیں/ کہ بیتے لمحوں کی جستجو میں ہم آج گھر سے نکل گئے ہیں۔
abdulghani630@gmail.com