عبدالرحمن عابد
دنیا میں جدھر بھی نظر اٹھائیے مسلمان مرتے کٹتے دکھائی دیتے ہیں امریکہ سے لیکر میانمار تک ہرجگہ مسلمان ہی مظلوم نظر آتے ہیں وہی مارے اور برباد کئے جا رہے ہیں اور ان ہی کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے یعنی جو مظلوم ہیں انہیں کو ظالم قرار دیکر سزائیں دی جارہی ہیں ، ہمیں نہیں معلوم یہ کونسی مہذب قوم کا قانون ہوسکتا ہے کہ مجبور مقہور بے بس انسانوں کو انکے مذہب کی بنیاد پر ظالمانہ کارروائیوں کا شکار بناکر ان سے سکون کی زندگی جینے کا انکا حق بھی غصب کرلیا جائے؟
خلیجی ممالک کو دیکھ لیجئے کس طرح منصوبہ بند طریقوں سے جھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈا مہم چلا کر دنیابھر کے سامنے جھوٹ کو سچ بناکر پیش کیا گیا اور اس کے بعد عراق ایسے طاقتور اور مستحکم ملک کو برباد کرکیاسکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ، پھر بہار عرب کے نام پر تیونس سے لیکر لیبیا مصر یمن عراق شام بحرین اور اب تو آگ سعودیہ میں حرمین شریفین تک پہونچنے لگی ہے ، یک قطبی دنیا میں امریکہ کی ہمنوااور حمایت کے بل پر دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو شکار کرنا ایک آسان دلچسپی کا مشغلہ ہوگیا ہے ، اور اس مظلوم قوم کی شنوائی بھی کہیں نہیں ہے ، مسلم ممالک گزشتہ نصف صدی سے اپنی عیش پرستی میں مگن رہکر قوت مزاحمت ہی کھو بیٹھے ہیں، آج صورت حالات یہ ہیکہ وہ دوسرے کی مدد تو کیا کرتے خود اپنی مدد آپ کرنے کی حالت میں بھی نہیں ، اپنی حفاظت کرنے کے قابل بھی جوقوم خود اپنی حفاظت کرنے کے بھی قابل نہ ہو تو آج کی کاروباری دنیا میں اسکی کون سنیگا اور کیوں سنے گا ،؟
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ آجکل جو ظلم وستم کئے جا رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہیں لیکن دنیابھر میں اس تعلق سے مجرمانہ خاموشی کا چھایا ہوا ہے ، دو روز قبل برما سے جان بچاکر بنگلہ دیش پہونچی دو بہنوں نے آپ بیتی ظلم کی جو داستان بیان کی ہے اسے سنکر پتھر کاجگر بھی شق ہوجائے لیکن گوشت پوست کے بنے چلتے پھر تے انسانوں پر اسکا بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ، ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی الیکشن جیتنے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دنیا بھر میں بسنے والے ظالم عناصر ٹرمپ کو صدارتی عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی بدنام کرنے پر اتر آئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیابھر میں مسلمانوں پر حملیتیزرفتاری اختیار کر رہے ہیں ، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بغیر کسی لاگ لپیٹ کے صاف گوئی سے امریکن مفادات کے تحفظ کے عزائم کا اظہار کرتے رہے ہیں، امریکہ کو مہاجرین سے خالی کرانے کی بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے مسلمانوں کو بھی امریکہ سے نکالنے کی بات کہی تھی، الیکشن جیتنے کے بعد حالان?ہ خود انہون نے اپنی پہلی ہی تقریر مین واضح طور پر اعلان کردیا کہ وہ سب کے ساتھ مل کر چلینگے , لیکن ترمپ کے اس اعلان کو جان بوجھکر نظر انداز کرتے ہوء4 ے دوران الیکشن دئییگئے ٹرمپ کے مسلم مخالف بیانات کو دنیابھر کے مسلم دشمن عناصرنے اپنی مجرمانہ حرکتوں کیلئے ہتھیار بنالیا ہے جو خود امریکہ اور ٹرمپ کی بدنامی کاسبب بن گئے ہیں۔ مصر شام بنگلہ دیش میانمار یہاں تک کہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں بھی کچھ مسلم دشمن عناصر ٹرمپ کی کامیابی کو مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی حماقت کے سپنے دیکھنے شروع کردیئے ہیں !
برحال مسلمانوں کو ان مسائل پر سنجیدگی اور تواتر کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی ، اگر اسی طرح غفلت وتساہل میں ڈوبے رہیں گے تو حالات مزید سنگین صورت اختیار کرلیں گے ، اپنے زخموں کا علاج خود نہیں کرینگے تو کو ئی دوسرا کیوں آپکے لئے آگے آئیگا ؟
وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک آٹھ نومبر کی رات آٹھ بجے پانچسو اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں کو اسی رات بارہ بجے کے بعد سے کاغذ کے ردی ٹکڑے میں تبدیل کرنے کا اعلان کرکے پورے ملک کو حیرت زدہ کردیا ، اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی نیند اور بھوک ہی اڑا دی تھی لیکن جیسے جیسے عوام کی تکلیف سامنے آئیں ویسے ویسے نوٹ بدلنے اور جمع کرنے کے ضابطوں میں بھی صبح شام تبدیلیاں ہوتی رہیں لیکن عوام کو تکلیفوں سے راحت نہیں ملی تو ملک بھر سے حکومت کی مخالفت شروع ہوگئی ، اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے عوام کے جذبات کو زبان دینے کی کوشش ضرور کی لیکن حکمران جماعت بی جے پی نے اپنی حکمرانی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئیبلبلاتے عوام پر جی بھر کر دیش بھکتی کی لاٹھی چلائی عوام تو بیچارے عوام ہی ٹھہرے مارے خوف کیبھکتوں کے سامنے بچوں کی بھوک بیماروں کے علاج کی بے بسی کی تکلیف کو بیان کرنے کے جذبات کو کڑوے گھونٹ کی طرح پیتے رہے ،
ماشاء4 اللہ ! یوں تو ملک کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے حکومت کی مخالفت کا فرض کفایہ ادا کردیا لیکن ثواب کچھ نہیں ملا ، بلکہ حکمراں بی جے پی کی دھمکیوں اور سنگھ پریوار کی سازشوں کے سامنے تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک لاچار و بے بس بچوں کی ٹولی کی طرح نظر آنے لگی اور وزیراعظم مودی ایک مضبوط ہنٹر والے جابر سر پھرے پہلوان کی طرح روٹھے بپھرے ناراض روتے بلکتے بچوں کو کوئی قطعاً کوئی چھوٹ دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے بلکہ اپنے ہنٹر کی ضرب سے ڈرا ڈرا کر دوڑانے کی ضد پر قائم ہیں ، وزیراعظم کے ہاتھوں میں راشٹریہ بھکتی کا ہنٹر سنگھ پریوار نے تھمایا ہے۔ حالانکہ ابھی یہ بھی طے نہیں ہوا کہ جس ہنٹر پر راشٹریہ بھکتی کا بھگوا دھوج لپیٹا گیا وہ اصلی ہے یا نقلی ؟ اصلی نقلی کاسوال اسلئے پیدا ہوا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال سے جس طرح ہر کام کے لئے حکمراں ٹولہ فرضی طریقے اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کام لے رہا ہے اس نے سنگھ کی نگرانی میں بی جے پی حکومت کے اعتبار اور سچائی کا ہی خاتمہ کردیا، نتیجہ یہ کہ حکومت کے کسی بھی وعدے اسر اقدام پر کوئی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ اگر سواسو کروڑ کے ملک میں ایک کروڑ لوگ حکومت پر اعتماد کریں بھی توآپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس اعتبار کا کتنا اعتبار ہوسکتا ہے ، اس صورتحال سے جہاں ملکی سطح پر حکومت کااقبال گرا ہے وہیں اسکے ناقابل تلافی نقصان بین الاقوامی سطح پر بھی سنگین صورت حالات کا باعث ہوسکتے ہیں ، حکومت کیاقبال کے لئے بھی نقصان کاسبب بن سکتے ہیں ،
*اپوزیشن کا لچررویہ*
نوٹ پابندی کے معاملے میں ملک کی تماماپوزیشن پارٹیاں مودی کے خلاف بھی ہیں لیکن بظاہر بے اثر بھی ہیں اسکی ایک اہم وجہ یہ ہیکہ حکومت مخالف ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بڑھکر انتخابی فائدہ اٹھانے پر نظر گڑائے ہوئے ہیں آپس میں بھی وہ نہیں چاہتی ہیں کہ دوسری جماعت کو یوپی گوا گجرات پنجاب وغیرہ ریاستوں کے اسمبلی الیکشنز میں فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملے کیونکہ یہ سب آپس میں بھی ایک دوسرے کی حریف ہیں ، اپوزیشن کی اسی کمزوری کا حکمراں بی جے پی فائدہ اٹھا رہی ہے !.
*ففٹی ففٹی 50/50 آدھا آدھا*
کالے دھن والوں کو حکومت نے آفر دیا ہے کہ جسکے پاس جو بھی کالا دھن ہے وہ لے کر آئے آدھا آدھا بانٹ لیتے ہیں بدلے میں آپکا کالا دھن سفید ہوجائے گا۔ جب حکمراں جماعت سے سوال کیا گیا کہ جن نوٹوں کو وزیراعظم نے کاغذ کیٹکڑوں میں تبدیل کردیا تھا اب انہیں کاغذ کے ٹکڑوں کو پھر سے کالے سے سفید بنانے کا کاروبار کس لئے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ لوگ پچھلے دروازے سے کالے کو سفید ب بنانے میں لگے ہوئے ہیں تو انکو روکنے کے لئے یہ نئی اسکیم شروع کی گئی ہے ، حالانکہ ذاتی طور پر ہم اس اسکیم کو ممک اور عوام کے لئے اچھا سمجھتے ہیں ، اس سے بہت سے ان ٹیکس چوروں کو بھی سدھرنے کا موقعہ مل سکے گا جن کے پاس کروڑں کی کرنسی کے کاغذ کے ٹکڑے ہوگئے تھے اب وہ بھی آدھا کالادھن حکومت کیحوالے کرکے اپنیحصے کے آدھے مال کو سفید کر لینگے ، اس اسکیم کے تحت حکومت کو کم ازکم ایک لاکھ کروڑ روپے ضرور ملنے کی توقع ہے۔
کالادھن آدھا آدھا تقسیم کرنے کا قانون آج لوک سے بھی منظور ھوگیا جنکے پاس بھی کالا دھن ہے اب انکو یہ سہولت ہوگی کہ وہ شریف آدمی طرح اپنامال بینک میں جمع کرکے ففٹی ففٹی کے اصول سے کالے کو سفید کر سکینگے۔ اور وزیراعظم مودی بھی حکومت کے پاس کالادھن وصول کرنے کا کریڈٹ لے سکتے ہیں ، اپوزیشن کو بھی کہنے کا موقع رعگا کہ ہمارے ڈر سے حکومت نے ففٹی ففٹی کا قانون پاس کرکے لوگوں کو کنگال ہو ے سے بچایا جاسکا ہے لیکن شاید بی جے پی اور سنگھ کے حلق کے نیچے یہ بات نت نہ اتر سکے کہ اپوزیشن کو بھی کسی اچھائی کے ساتھ تذکرہ میں لایا جائے۔ چونکہ سنگھ پریوار کے علاوہ ملک میں کوئی دیش بھکت تو ہے ہی نہیں! ایسے دیش دروہیوں سے تو دیش کو پاک کرنے کا پلان ہے بی جے پی کے پاس ؟ جسے وہ جلد از جلد عملی جامہ پہنانا چاہتی ھے .!(ملت ٹائمز)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)