ڈاکٹر وہاب عندلیب ….. ہمہ جہت شخصیت کے مالک

ڈاکٹر رفیق رہبر موظف لکچرر گلبرگہ 

کسی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا کئی وجوہ کے باعث مشکل کام ہے۔کیونکہ پہلے شخصیت کو سمجھنا اور اس کے حدودکا تعین کرنا کار دارد ہے۔
کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سے تعلق خاطر ہو اور اس کے ساتھ عرصہ حیات کا خاطر خواہ وقت گذرے تب ہی ہم اس شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ چنانچہ راقم الحروف نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب کے ساتھ گذارا ہے۔ اسی لئے آج ان کی شخصیت کا بھرپور جائزہ تو نہیں لے سکتا البتہ وقت کی مناسبت سے مختصر جائزہ لے رہا ہوں۔
اس فرزند گلبرگہ سے کون واقف نہیں ۔۔۔؟ اردو ادب میں گرانقدر خدمات کے ذریعہ اپنا خاص مقام بنالیا ہے۔ والدین نے آپ کا نام محمد عبدالواہاب رکھا۔آپ نے دوران تعلیم قلمی نام وہاب عندلیب سے متعارف ہوئے۔
بتاریخ 25؍ دسمبر 1933ء کو موضع گگن مڈی تعلقہ و ضلع گلبرگہ میں پیدائش ہوئی۔ محترم والد صاحب کا نام گرامی محمد پٹیل صاحب مرحوم اور محترمہ والدہ صاحبہ کا نام احمدی بی تھا۔ابتدائی تعلیم و ثانوی تعلیم شہر گلبرگہ میں حاصل کی ۔بی۔اے ۔،ایم۔اے فلسفہ سے اور بی۔ ایڈ عثمانیہ یونیورسٹی سے اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ سے اردو ایم۔ اے میں امیتازی کامیابی حاصل کی مختلف مدرسوں اور کالجس میں خدمات انجام دینے کے بعد گورنمنٹ جونیر کالج ہبال سے بہ حیثیت پرنسپال حسن خدمت پر 1991ء میں سبکدوش ہوئے۔
ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب کی زندگی ایک طالب علم کی زندگی رہی ہے۔ان کا قلبی شوق اور فطری ذوق کتابوں کا مطالعہ ہے۔ان کا قلمی سفر 1950ء سے شروع ہوا۔ انھیں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید نگاری اور خاکہ نگاری سے بھی گہری وابستگی ہے۔آپ کے مضامین ہندوستان کے موقر رسالوں میں چھپ کر داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔
اُردو کے فروغ کیلئے جلائی گئی یہ شمع جو انجمن ترقی اردو شاخ گلبرگہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے اس کو مختلف ادوار میں محبان اردو نے سرگرم رکھا اور وہاب عندلیب صاحب بھی اس کی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں پیش پیش رہے۔ہمارے اردو اساتذہ کا یہ وصف رہا ہے کہ نصابی تعلیم کے علاوہ تحریری و تقریری مقابلہ جات اور رسائل کی اجراء کی طرف بھی خاص توجہ دیتے رہے۔جس کی وجہ سے ہمارے طلباء و طالبات میں لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملی۔انھیں طلباء میں وہاب عندلیب بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب1959ء میں انجمن ترقی اردو شاخ گلبرگہ کے بانی معتمد رہے اور پھر اس ادارہ انجمن ترقی اردو گلبرگہ کے دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو اپنی ملازمت اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
آپ کی پہلی تصنیف’’ غیاث صدیقی شخصیت اورفن‘‘ تالیف1978ء منظر عام پر آئی۔پھر قامت و قیمت کی اشاعت 1981ء میں عمل میں آئی۔ بہار ،آندھرا پردیش اور کرناٹک اردو اکاڈمیوں نے 1982ء میں قامت و قیمت کو انعامات سے نوازا۔
تحقیق و تجزیہ مضامین 1999ء اور افکار و نظریات تالیف 1999ء تحقیق و تجزیہ کی اشاعت پر جامعہ گلبرگہ کا پرسار رنگا اوارڈ (انعام) 2000ء میں حاصل ہوا۔
ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب کی مجموعی خدما ت کے اعتراف میں آل انڈیا اُردو منچ بنگلور کی جانب سے پچاس ہزار کیسہ زر عطا کیا گیا۔ اس خطیر رقم کو ڈاکٹر صاحب نے انجمن ترقی اردو شاخ گلبرگہ کے تعلیمی فنڈ کو عنایت فرمایا۔
اُردو اکیڈیمی کے تحت آپ کی صدارت میں کرناٹک اردو نرسری اسکولس کے نصاب کی تدوین عمل میں آئی۔جس پر اردو اکیڈیمی بنگلور دس ہزار روپیہ رائیلٹی عنایت کی۔جس کو انہوں نے انجمن ترقی اردو کے اشاعتی فنڈ میں دیدیا۔اس کے علاوہ 2012ء گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ نے آپ کے خاکوں کے مجموعہ گفتار و کردار کو انعام سے نوازا۔جس کی رقم پانچ ہزار روپیہ بھی آپ نے انجمن کی اشاعتی فنڈ کو عنایت فرمایا۔
کرناٹک اردو اکادمی کے رکن کی حیثیت سے آپ نے1987ء تا1990ء اور1995ء تا 1999ء خدمات انجام دیں۔
صدر کرناٹک اردو اکادمی بنگلور کے صدر کی حیثیت سے2001ء تا2004تک ناقابل فراموش خدمت انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب 1995ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج ادا کرچکے تھے دوبارہ والد محترم کاحج بد ل کیا تو میں اور میری اہلیہ نے بھی اُن کے ساتھ2008ء میں حج ادا کیا۔تقریباً 46دن آپ کا ساتھ رہا۔اس دوران میں بھی ان کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
اللہ رب العزت نے ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب کو بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے۔اُردو دُنیا میں خاص کر حیدرآباد کرناٹک اور بمبئی کرناٹک میں بہت زیادہ پہچانے جاتے ہیں۔اور اگر میں یوں کہوں کہ آپ کی شہرت سارے ہندوستان کی اردو دُنیا میں ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بہت سادگی ،صفائی کا دخل ہے۔یہ حساس شخصیت کے مالک ہیں۔ان کا اپنا ایک نصب العین ہے۔جس کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں۔وہ اپنا راستہ خود متعین و ہموار کرنے کے عادی ہیں۔ تقریباً نصف صدی سے گلبرگہ کی سرزمین پر اردو کی ترقی کیلئے بلا تکان کام کررہے ہیں۔وہاب صاحب کی طبیعت میں سادگی فطرت میں شرافت دردمندی ،عفو و درگذر کے علاوہ طبیعت میں ملنساری و حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ان کا وصف ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ غصہ کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔طبعاً وہ کم آمیز اور کم گو ہونے کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج ،مخلص حاضر جواب اور بااصول شخصیت کے مالک ہیں۔
بقول شاعر ؂
کچھ کئے جاولے کے نام خدا کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے
کامیابی کوئی اور چیز نہیں کام کرنا ہی کامیابی ہے
ڈاکٹر صاحب کو ادبی لگاؤ کے ساتھ ساتھ دین و مذہب سے خاص لگاؤ و دلچسپی ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو دین و دنیا سے بے بہرہ نہیں رکھا۔
بڑی صاحبزادی ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹر اورداماد بھی سی۔اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) ہیں۔ یہ دونوں بنگلور شہر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
دوسرے فرزند انجینئر ہیں جو اپنی نصف بہتر(رفیق حیات)اور بچوں کے ساتھ دبئی میں برسرکار ہیں۔
وہاب عندلیب صاحب کا یہ فطری نظریہ ہے کہ ؂
مجھ کو بدلنا ہے میری قوم کے بچوں کا مزاج بن تراشے ہوئے ہیرے اچھے نہیں لگتے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ آپ کی عمدہ صحت اور چاق و چوبند رہنے کا کیا راز ہے۔یوں تو ہر چیزکا دارمدار اللہ کی ذات و مرضی پر ہوتا ہے۔پھر بھی اگرانسانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چند باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔وقت پر سونا،فجر میں اُٹھنا،چہل قدمی کرنا اور کھانے پینے میں محتاط رویہ رکھنا،یہ ان کا خاصہ ہیں۔اس کے علاوہ کم بولنا اور کبھی بھی پریشان نہ ہونااور ہمیشہ مصمم ارادہ رکھنا ان کا وطیرہ ہیں۔اختلافی امور میں الجھنا ان کی عادت نہیں۔یہ پہلے مخالف کو بہ غور سنتے ہیں اُسے اپنی پوری بات کہنے کا موقع دیتے ہیں۔بالآخر اپنی بات مدلل طور پر پیش کرتے ہیں۔
دوست احباب سے ہمیشہ ملاقاتیں کرنا آپ کا شیوہ ہے اور مہما ن نوازی آپ کا خاصہ ہے۔پدم شری جناب مجتبیٰ حسین صاحب آپ کے خاص دوست ہیں ان کے علاوہ قدیر زماں،بیگ احساس،سید مجیب الرحمن اور پروفیسر ایم کے کول(لکھنو)وغیرہ آپ کے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس شعر پر کارفرما نظر آتے ہیں ؂
میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
ڈاکٹر وہاب عندلیب صاحب کی ادبی خدمات کے ضمن میں انجمن ترقی اردو شاخ گلبرگہ اور محبان اردو دوست احباب کی جانب سے ایک دلفریب جلسہ KBNآڈوٹیوریم میں جشن وہاب عندلیب بتاریخ14؍فروری2010ء کو منایا گیا۔جو قابل دید ہی نہیں قابل تعریف بھی تھا۔
گلبرگہ یونیورسٹی نے آپ کی پچاس سالہ تعلیمی و ادبی خدمات کے صلہ میں اعزازی ڈگری ڈی لیٹ 27؍ فروری 2012ء کو تفویض کی۔ حقدار کو اس کا حق ملا۔
ڈاکٹر صاحب کو گلبرگہ اور گلبرگہ والوں سے بے حد لگاؤ و پیار ہے۔ایک استاد کی حیثیت سے انہوں نے کئی نسلوں کی ذہنی تربیت و آبیاری کی ہے۔اللہ رب العزت آپ کی عمر دراز کرے اور صحت و توانائی بخشے۔ آمین ثمہ آمین۔
★ موبائل نمبر:9901085086

SHARE