آہ!مولانا انیس احمد اصلاحی بھی رخصت ہوگئے

محمد علم اللہ، نئی دہلی
دور درشن، دہلی سے میرے دوست مالک اشتر نے فون کیا اور اطلاع دی کہ مولانا انیس احمد اصلاحی نہیں رہے۔ ظاہر ہے یقین کرنے والی بات نہیں تھی، لیکن دل کی جو کیفیت تھی، وہ بیان سے باہر ہے۔ بات ختم کرنے کے بعد انٹرنیٹ پر تحقیق کیلئے سرچ کیا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی۔مولانا سچ مچ نہیں رہے اور 22 اپریل 2021 کو انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ نہ جانے ہم کس عہد میں داخل ہو گئے ہیں جس میں اچھے لوگ مستقل رخصت ہو ئے جاتے ہیں۔ یہ موت کی آندھی کتنے گلشنوں کوویران کر دے گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مولانا کے انتقال کی خبر سن کر جیسے دل ہی اچاٹ ہو گیا۔ ایسے تو ہر دن کسی نہ کسی کے مرنے کی خبر سینہ چیرے دے رہی ہے، مگر کچھ ایسے لوگ جن کی شفقت و محبت آپ پر سایہ فگن رہی ہو، دور ہو جائیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ مولانا انیس احمد اصلاحی انہی لوگوں میں سے تھے۔ سادہ مزاج، قلندر صفت انسان۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر نہ جانے کتنی باتیں یاد آئیں۔
مدرسۃ الاصلاح کا سنسا ن پڑا مہمان خانہ ہے۔ گرمیو ں کا دن ہے، اکا دکا پرندے چیں چاں کرتے سامنے درختوں پر پُھدک رہے ہیں، گئے زمانوں کا ایک بڑا سا پرانا پنکھا چھت پر ٹنگا ہے اور اپنے مریل انداز میں کَھَٹر کَھَٹر، کْھٹْر کْھْٹر چل رہا ہے۔ کھڑکیوں میں باہر خس کا ٹاٹ لگا ہے اور اس میں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہے۔ اندر ترتیب سے کچھ کرسیاں اور چار، پانچ چار پائیا ں پڑی ہیں، ایک چارپائی پر مولانا لیٹے ہوئے ہیں۔ میں ایک افسانہ لئے مولانا کے پاس پہنچا ہوں کہ اصلاح فرما دیں۔ وہ کہہ رہے ہیں پڑھو اور ہاتھ اصلاح کرتے جا رہے ہیں،ساتھ ہی الفاظ کی باریکیوں، نزاکتوں اور اس کی لطافتوں پربھی اشارے کرتے جاتے ہیں۔
اس واقعہ کو برسوں بیت گئے لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کل ہی کی تو بات ہے۔افسانہ مکمل ہوا تو مولانا نے کہا، اس میں کچھ چونکانے والی بات ہونی چاہئے۔ سنو! اس میں یہ اضافہ کرو۔، پھر استاذ نے خود دو تین سطروں کا آخر میں اضافہ کرایا، میں نے کہا ’عنوان کیا ہو‘؟ فرمایا ’ضمیر کی آواز‘ لکھ دو۔ میں نے وہ افسانہ ماہنامہ نور میں بھیج دیا۔ اتفاق سے وہ چھپ گیا۔پہلی مرتبہ کسی تحریر کے چھپنے کی جو خوشی ہوتی ہے، میں اسے آ ج تک فراموش نہیں کر سکتا۔
مدرسۃ الاصلاح میں کئی اساتذہ بہت سخت گیرتھے، ان کی آنکھوں کی غضب ناکی ڈر پیدا کرتی اور اسی کو وہ اپنی شان سمجھتے۔ معمولی غلطی پربھی وہ طلبہ کی اس قدر پٹائی کرتے کہ ان سے کچھ پوچھنا تو در کنار ایسے اساتذہ سے طلبہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مگر یہ مولانا کی خوبی تھی کہ ان کے ہاتھ میں کسی نے کبھی چھڑی نہیں دیکھی، نہ انھوں نے کبھی کسی سے سخت لہجہ میں بات کی۔میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں کبھی آپ کو خفگی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ وہ الفت و محبت کے پیکر تھے۔ نرم مزاجی اور شفقت ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔وہ ہنسنے، ہنسانے اور دوسروں کو خوش کرنے والے انسان تھے۔ دیگر مولویوں کی طرح وہ کلاس میں کبھی کوئی مسلکی بات نہ کرتے۔ وہ خالص ادب کے استاد تھے اور ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔
ہمیں ا نھوں نے دیوان حماسہ اور عربی انشاء و ادب کا درس دیا، جب کہ دیگر کلاسوں میں وہ کلیلہ دمنہ، محاسن الشعر اور تاریخ دول العرب والاسلام کا درس دیتے۔ مولانا دیوان عرب کے حافظ تھے، حماسہ پڑھاتے ہوئے وہ کبھی کبھی وجد میں پوری پوری عربی نظم کا اردو میں منظوم ترجمہ کراتے چلے جاتے۔ فارسی اور عربی زبان و ادب کےساتھ کلاسیکی اور جدید اردو ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی، جس کا اندازہ ان کے درس سے ہوتا۔کہتے ہیں لٹریچر کے مطالعہ سے دل نرم ہوتا ہے۔ انسان کے اندر دکھ درد کو سمجھنے کی کی صلاحیت پیدا ہو تی ہے۔ مولانا کی نرم مزاجی، بذلہ سنجی اور ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور مست رہنے کی صفت یقیناً ان کے اسی شوق کا نتیجہ رہی ہوگی۔
مولانا انیس احمداصلاحی اچھے شاعر تھے۔ ان کی سخنوری پر رشک آتا تھا۔ انھیں اپنی تحریریں چھپوانے کا شوق نہ تھا۔ ان کی بہت کم ہی تخلیقات منصۂ شہود پر آئیں۔ جن میں سے کچھ مدرسۃ الاصلاح کے سالانہ مجلہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مدرسۃ الاصلاح میں جب بھی کسی اہل علم مہمان کی آمد ہوتی، سپاس نامہ اکثر مولانا ہی پیش کرتے۔ کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی ان کی زبان کا عالم یہ ہوتا کہ طلبہ کیا اساتذہ بھی سننے کیلئے بھاگے چلے آتے۔کسی صاحبِ علم شخص کا انتقال ہوتا تو تعزیتی مجلس میں وفیات پر لازماً خطاب فرماتے، خطبہ ء استقبالیہ یا خطبۂ اختتامیہ اس خوبی سے پیش کرتے کہ دل میں اتر جاتا۔سرائے میر کے طرحی مشاعروں میں اکثر شرکت کرتے اور محفل لوٹ لیتے۔ وہ جس موضوع پر لب کشا ہوتے حُسن ِتکلم، خوبی ادا، صحت اِلفاظ، موزونی تراکیب، برجستہ اشعار اور علمی استدلال سے ایسا سماں باندھ دیتے کہ ’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘ والی کیفیت پیدا ہو جاتی۔
مولانا کی بے تکلفی ان کی خصوصیت تھی، مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ چائے خانہ، کینٹین، لائبریری، اسٹاف روم جہاں بھی جاتے، لوگ انھیں گھیرے رہتے۔ جیسے شمع گے گرد پروانوں کا ہجوم، شاید انھیں اس میں شانتی ملتی ہو، مولانا کی محفل میں اُسی طرح دل آسودہ ہوتا، لوگ ہنستے،مسکراتے، کھلکھلاتے اور یادوں کی ایک کہکشاں لئے چلے جاتے۔
مولانا سنجیدہ سے سنجیدہ محفل کو بھی لالہ زار کر دیتے اور لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ غالباً یہ مولانا امین احسن اصلاحی سیمنار کے وقت کی بات ہے، جب مدرسے میں پاکستان سے مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد رشید خالد مسعود صاحب تشریف لائے ہوئے تھے۔ مولانا مسجدسے باہر نکل رہے تھے، کئی سینئر اساتذہ اور اسکالرز ان کے ساتھ تھے۔ کسی نے مزاح میں مولانا سے کہا مولانا ’آپ کی شلوار ٹخنے سے نیچے ہے‘۔ مولانا نے ہنستے ہوئے کہا،ْ لوگ چاند اور مریخ میں کمندیں گاڑ رہے ہیں اور آپ شلوار کے نیچے ہی جھانکتے رہیے‘۔ اس وقت لوگوں کا ہنستے ہنستے کیا حال تھا مت پوچھئے۔
ایک عرصہ گذرنے کے بعد مولانا سے میری ملاقات جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں 9 فروری 2017 کو’اختر مسلمی فن اور شخصیت‘کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں ہوئی، وہی کج کلاہی اور شیروانی جو برسوں پہلے دیکھا تھا، برقرار تھی۔ سیمنار میں انھوں نے صدارتی خطبہ پیش کیا۔ اس میں شرکت کرنے والے بہت سے طلبہ اور اساتذہ آج بھی اس گفتگو کو یاد کرتے ہوئے حسرت سے کہتے ہیں کہ ویسی عالمانہ شان والی گفتگو اس کے بعد سننے کو نہیں ملی۔
سیمنار ختم ہونے کے بعد ہسٹری ڈپارٹمنٹ کے سامنے باغِ نانک میں بیٹھ کر میں نے مولانا کا بہت طویل انٹرویو ریکارڈ کیا، لیکن افسوس کہ اسے شایع نہیں کرسکا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ میرا ایک دوست مجھ سے میرا لیپ ٹاپ مستعار لے کر گیا اور وہ لیپ ٹاپ ہی چوری ہو گیا۔ اس میں میری بہت سی تحریروں کے ساتھ ساتھ وہ انٹریو بھی شامل تھا، جو ضائع ہو گیا۔جس کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔
اُس انٹرویو کی روشنی میں کچھ چیزیں میں یہاں اپنے حافظہ سے رقم کر رہا ہوں۔مولاناکی پیدائش اعظم گڈھ کے ایک چھوٹے سے قصبہ سرائے میر میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے وہیں کے ایک معروف ادارہ مدرسۃ الاصلاح میں مکتب سے لے کر فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی، پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور وہاں سے دور حدیث مکمل کیا۔ بعد میں انھوں نے لکھنو یونیورسیٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازم رہے۔ پھر اسے چھوڑ کر محمد بن سعود یونیورسیٹی ریاض چلے گئے، جہاں سے انھوں نے زبان و ادب میں چار سالہ ڈپلومہ کا کورس کیا۔ وہاں سے تعلیم مکمل ہونے کے بعد مدرسہ الاصلاح میں بطور استاذ ان کاتقرر ہو۔ وہ استاد کے علاوہ ایک مدت تک مدرسہ کے نائب صدر اور صدر کے عہدہ پر فائز ر ہے۔ انھوں نے مدرسہ سے جاری ہونے والے سہ ماہی ’نظام القرآن‘ کے مدیر انتظامی اور انجمن طلبہ کے ترجمان مجلہ کے مشرف کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور تا عمر اس ادارہ سے وابستہ رہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسی موقع پر مولانا نے ایک واقعہ سنایا، ’شعر و شاعری سے زمانہ طالب علمی سے ہی دلچسپی تھی، اُسی زمانہ میں ایک مرتبہ دارالعلوم میں ہم لوگوں نے ایک شعری نشست منعقد کی اور مولانا محمد سالم قاسمی صاحب (مرحوم) کی خدمت میں یہ درخواست کرنے کی جرأت کی کہ حضرت اس نشست کی سرپرستی فرمادیں، مولانا نے کہا؛ ’ ہم علماء کیلئے شعر و شاعری کو بڑھاوا دینا مناسب نہیں ہے اور آج تک کسی نے مجھ سے اس طرح کی بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کی، تاہم انہوں نے اس پر پابندی نہیں لگائی اور نہ اس نشست کے انعقاد سے منع کیا، ساتھ ہی انہوں نے طلبہ کو اشعار میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کی اجازت بھی دی، بھلے ہی انہوں نے سرپرستی قبول کرنے سے انکار کردیا‘۔ افسوس ایک ایسی ہستی ہم میں نہیں رہی جن کے دم سے زبان و ادب کی محفل آباد تھی۔
مولانا طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ان کا علاج اسکورٹ ہاسپیٹل سے ہو رہا تھا۔ آخری مرتبہ اس ماہ کے اوائل میں دہلی تشریف لائے تو ایک غزل سنائی،جس کے کچھ اشعار یہاں نقل کر رہا ہوں:
عظمت ماضی پہ کردو اپنا مستقبل نثار
آنے والی نسل کو تم داغ رسوائی نہ دو
کٹ گئے بازو مگر ہمت سے رشتہ ہے ابھی
دوستو ثابت قدم کو طعنِ پسپائی نہ دو
تم غزل کیسے کہوگے، مرثیہ لکھو انیس
ساز غم انگیز کو آہنگِ شہنائی نہ دو
2016ء میں مدرسۃ الاصلاح کی مجلس انتظامی کے رکن ماسٹر اشیاق احمد صاحب کے انتقال پر مولانا نے ایک نوحہ کہا تھا، اپنے دوست کی موت پر مولانا کی جو کیفیت تھی، ان کے انتقال پر آج ہم بھی نوحہ کناں ہیں:
کون ہے کس سے کہیں افسانہ رنج حیات
گم سکوتِ نا امیدی میں ہے ساری کائنات
اے اجل آ تجھ سے ہی ہستی کا یارانہ کریں
پُر شرابِ مرگ سے رگ رگ کا پیمانہ کریں
اے اللہ! تو میرے استاد کے مرقد کو نور سے بھر دے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔