قتل عام کیلئے ذمہ دار کون :روس ،ایران ،اسد یا کوئی اور ؟

خبر درخبر(496)
شمس تبریز قاسمی
بے گناہوں کا قتل عام ،معصوموں پر ظلم وستم ،خواتین کی عصمت دری اور سبز وشادا ب شہر کی تباہی وبربادی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ،تاریخ انسانی میں ایسے سینکڑوں واقعات پیش آچکے ہیں جس میں ظلم وبربریت کا ننگا ناچ کیا گیا ،بے گناہوں اور عام شہریوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں،خواتین کی عصمت تارتار کی گئیں ،شیر خوار بچے کو ماں سے جداکرکے اس کی نگاہوں کے سامنے قتل کیا گیا ،شوہر کا سر بیوی کے سامنے اور بیوی کا سر شوہر کے سامنے تن سے جد اکیا گیا ہاں ! فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں جب یہ سب ہواتھا اس وقت اقوام متحدہ نام کی کسی متحدہ عالمی تنظیم کا کوئی نام ونشا ن تھا ،نیٹو فوج نہیں تھی،میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا وجود نہیں تھا ،کیمرہ ،ویڈیوز ،فوٹو ز کا کوئی تصور نہیں تھا ،سوشل میڈیا کا کوئی چلن نہیں تھا، ایک ملک میں ہونے والی ظلم وزیادتی اور قتل وغارت گری کی خبریں ہفتوں اور مہینوں بعد کسی دوسرے ملک کے حکمراں اور عوام کو معلوم ہوتی تھیں۔
آج حلب میں قتل وغارت گری کی یہ واردات پوری دنیا براہ راست دیکھ رہی ہے ، پل پل کی خبریں سن رہی ہے ،ظالم کی ہرحرکت اور مظلوم کی ہر آہ ان کے کانوں تک پہونچ رہی ہے،تباہ و برباد ہونے والے شہروں کی ہر خبر پر ان کی نظر ہے لیکن ان کے ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہورہاہے ، اس ظلم کے خلاف بولنے ،اسے روکنے اور اس کے خلاف ایکشن لینے کی ہمت نہیں ہورہی ہے ،ماضی میں اس طرح کے واقعات کو قتل عام اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم قراردینے والی عالمی تنظیمیں حال کے واقعات پر خاموشی کا مظاہر ہ کرکے اسے سند جواز دے رہی ہیں ۔
کل دنیا بے حس تھی یا نہیں اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے لیکن آج میرا قلم یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ دنیا بے حس ہوچکی ہے ،ضمیر مردہ ہوچکا ہے ،انسانیت ختم ہوچکی ہے ،ہمدردی اور غمخواری کا تصورعنقا ہوگیا ہے ،نگاہوں کے سامنے بے گناہوں اور عام شہریوں کا قتل ہورہاہے لیکن اسے روکنے کی توفیق نہیں مل رہی ہے۔ حلب میں جاری قتل وغارت گری کیلئے مجرم روس ،ایران اور بشارالاسد نہیں بلکہ اقوام متحدہ،امریکہ ،یورپ ،مسلم حکمراں اور دنیا بھر کے انسان اور حکمران ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے ظلم وبربریت کا یہ کھیل کھیلا جارہاہے لیکن انہیں روکنے کی توفیق نہیں ہورہی ہے یا پھر ان کے پاس اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ خوفناک مظالم کا یہ سلسلہ بند کراسکیں ،ظالموں کو ظلم کرنے سے روک سکیں ،مظلوموں کی مدد کرسکیں ۔
ماضی میں جب شہروں کو تاراج کیا جاتا تھا ،انسانوں کا قتل عام کیا جاتا تھا،تخت وتاج کیلئے انسانی کھوپڑیوں کو زینہ بناکر استعمال کیا جاتاتھا،دریاؤں کو انشانی لاشوں سے پاٹا جاتا تھا،سمندروں کے سفید پانی کو عام شہریوں کے خون سے سرخ کیاجاتا تھا تو اس وقت دنیا کے دیگر حکمرانوں اور عام انسانوں کو اس کی خبر نہیں مل پاتی تھی لیکن آج جب یہ سب ہوتاہے تو پوری دنیاسوشل میڈیا ،ذرائع ابلاغ ، ویڈیو اورفوٹو ز کے سہارے براہ راست یہ تمام مناظر دیکھتی ہے اوراس کے باوجود نہ تو مظلوموں کی مدد کرتی ہے نہ ہی ظالموں کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔اس لئے آج کی تاریخ میں اصل مجرم حملہ آور قوم نہیں بلکہ ان حملوں کو خاموش نگاہوں سے دیکھنی والی اقوام ہیں۔(ملت ٹائمز)

SHARE