وہ یگانہ استاذ و مربی

(حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

اظہارالحق قاسمی بستوی

استاذ، مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ

حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات اور اس سے ہونے والے عظیم خسارے کو ہند و بیرون ہند کے تمام ادبی و علمی حلقوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ حضرت مولانا اپنی ذات میں ایک انجمن اور اپنے کاموں میں ایک مکمل اکیڈمی تھے۔ آپ کو زندگی کے تمام شعبوں میں ایسا ستھرا، سلیم اور نفیس ذوق عطا ہوا تھا کہ اس کی مثال ملنی دشوار بل کہ سخت دشوار ہے۔ آپ اردو اور عربی کے یکتائے روزگار ادیب تھے۔ آپ کی زبان و تحریر دونوں حق گوئی کے علم بردار تھے۔ آپ جو بولتے وہی اور ویسے ہی لکھتے۔ عربی ماہ نامہ الداعی کا آخری کالم “اشراقہ” آپ کی فکر و احساس کا ترجمان ہوتا، جس میں کبھی آپ اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتے، کبھی معاشرے اور طلبہ کی کجیوں پر بے لاگ تبصرے کرتے اور کبھی کوئی علمی نکتہ رقم کرتے۔

اس راقم کو حضرت مولانا سے سن 2009-2010 کے تعلیمی سال میں تکمیلِ ادبِ عربی کے شعبے میں شرف تلمذ حاصل ہوا۔ اس سے قبل اور اس کے بعد مولانا کے پاس ان کی شخصی وجاہت اور علمی قامت کی وجہ سے میری آمد و رفت نا کے برابر رہی۔ مولانا کے آبگینہ رو ذوق و مزاج کو جانتے ہوئے ان کے پاس آنے جانے کی ہمت نہ ہوتی۔ مگر درس گاہ کی ان کی تقریر دل پذیر اور الداعی اور دیگر کتابوں میں ان کی شگفتہ اور بے لاگ تحریروں سے بہت استفادہ کیا۔ ابھی چند ہفتے قبل مولانا محمد ولی رحمانیؒ کی وفات پر مولانا کے قلمی تعزیت نامے کو بار بار پڑھا، باریکی سے دیکھا اور اس کی خوب صورتی اور خوب سیرتی سے لطف اندوز ہوا۔

 مولانا ایک بہترین استاذ ، بے مثال مربی اور استاذ ساز شخصیت تھے۔ جس چیز کو ہم معمولی سمجھتے اسے وہ غیر معمولی سمجھ کر مختلف انداز سے توجہ دلاتے۔ اپنے اسی ایک سالہ تعلیمی صحبت کی روشنی میں یہ چند باتیں لکھ رہا ہوں تاکہ مولانا کے قدر شناس ان کی ترتیب و تعلیم کے نرالے اسلوب سے فائدہ اٹھائیں اور میں مولانا کے ساتھ اپنی کچھ یادوں کو محفوظ کرسکوں:

1۔ حضرت مولانا خود بھی وقت کے بہت پابند تھے اور اپنی جماعت کے طلبہ کو بھی سخت پابندی کرواتے۔ گھنٹی لگتے ہی وہ درس گاہ پہونچ جاتے اور پورا ایک گھنٹہ پڑھاتے، سکھاتے، بتاتے، سمجھاتے، ہنساتے اور رلاتے۔ کسی طالب علم کی مجال نہ تھی کہ مولانا کے درس گاہ میں داخل ہونے کے بعد آئے۔ اگر کبھی کوئی بھولا بھٹکا آگیا تو مولانا کی رگ حمیت پھڑک جاتی۔ اس کو ایسی سونی سونی کھری کھوٹی سناتے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ وہ اپنے ایک دن لیٹ آنے پر کئی دنوں تک افسوس کرتا۔ یہ مولانا کی زندگی کا معمول تھا کہ وقت کی پابندی کے حوالے سے کسی رعایت کو روا نہ سمجھتے۔ مختلف عوارض کے باوجود اپنا ایک ایک لمحہ برتتے جس کے نتیجے میں درجنوں شاہکار علمی اور قلمی خدمات انجام دیں۔

2۔ مولانا درست عربی عبارت خوانی پر بہت توجہ دیتے۔ وہ ہم لوگوں کو المختارات العربیہ پڑھاتے تھے جو مختلف موضوعات پر اخباری تراشوں کا مجموعہ ہے۔ مولانا اس کتاب کو پڑھاتے نہیں بل کہ گھول کر پلاتے تھے۔ جس طالب علم کو عبارت پڑھنی ہوتی اس کا اس دن کا قیلولہ عبارت خوانی کی درستگی اور سلاست کی نذر ہوجاتا۔ قاریٔ عبارت اگر عربی لہجے اور درستگیِ قواعد عربی کی رعایت میں کوتاہی کرتا تو اسے بہت سخت مرحلے سے گزرنا ہوتا۔ اگر کوئی اچھے لہجے میں عبارت خوانی کرتا تو مولانا مست ہو جاتے اور عبارت کے ختم پر ‘جمیل’ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی فرماتے جو طالب علم کے لیے کافی اعزاز اور فخر کی بات ہوتی کہ مولانا کا معیار قبول و رد نہایت اعلی تھا۔ اس راقم کو اپنے لیے بھی کئی بار مولانا سے جمیل والی حوصلہ افزائی نصیب ہوئی۔ اچھی عبارت خوانی سے ہی اچھا عربی کا ذوق بنتا ہے اس لیے مولانا اس میں کسی رعایت سے کام نہ لیتے۔ خود مولانا بھی جب کوئی عبارت بولتے تو اس میں عربی لب و لہجہ کی زبردست رعایت کرتے۔

3۔ دوران درس گزرنے والے ہر نئے لفظ کی خوب ہندی کی چندی کرتے۔ ہر لفظ کے مختلف مواقع استعمال اور طُرُق استعمال بتلاتے۔ اس پر کئی ایک جملے بناتے اور سمجھاتے کہ اس کو کس صلے کے ساتھ کیسے اور کس معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی تعبیر کو سمجھانے اور برتنے کے لیے پورا پورا ایک پیرا گراف بناڈالتے۔

4۔ عربی مشق و تمرین کے لیے روزانہ رات کو کم از کم ایک گھنٹہ جملہ سازی کرواتے۔ مولانا نے تین تین اور چار چار طلبہ کا گروپ بنوا کر سب کو پابند کردیا تھا کہ خواندہ تعبیرات پر روزانہ اتنے جملے بنائیں کہ وہ تعبیرات غلام بن جائیں۔ مولانا فرماتے تھے کہ زبان اور اس کے الفاظ کا کیا ہے وہ تو کتابوں میں موجود ہی رہتے ہیں۔ اس لیے ہر تعبیر پر اتنی مشق کرو کہ جب کچھ لکھنے بیٹھو تو الفاظ آکر صف بستہ کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ ہمیں استعمال کرو، ہمیں استعمال کرو۔ ایسا کرنے کے لیے ہر لفظ اتنی بار برتو اور استعمال کرو کہ وہ تمہارے قابو میں آ جائے۔ مولانا کے بتائے ہوئے اس طریقے پر مشق کرنے کی بدولت کچھ عربی لکھنے پڑھنے کا شعور حاصل ہوا۔

5۔ مولانا حسن تحریر کی طرف بھی توجہ دلاتے۔ عربی خطوط میں خط رقعہ لکھنے کی ترغیب دیتے اور فرماتے کہ یہ رائج، سہل اور سریع الکتابۃ خط ہے۔ اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے انھوں نے ‘خط رقعہ کیسے لکھیں’ کتاب بھی لکھی جو خط رقعہ سیکھنے والوں کے لیے نہایت مفید کتاب ہے۔ اس ناچیز نے بھی اسی زمانے میں خط رقعہ کی مشق کی اور حسن اتفاق سے شش ماہی اور سالانہ دونوں میں مولانا نے پورے پچاس نمبر دیے۔

6۔ مولانا اردو شروح کے سخت مخالف تھے اور انھیں طلبہ کی صلاحیت کی تخریب کا سب سے بڑا ذریعہ گردانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر میرا بس چلے تو میں اردو شروح پر پابندی لگا دوں بل کہ ساری اردو شروح کو جلوا دوں۔ وہ اردو شارحین پر بھی سخت جملے چست کرتے۔ بسا اوقات اردو شروح کی مذمّت میں وہ اس حد تک چلے جاتے کہ ہم لوگوں کو بھی ان شرحوں سے وحشت سی ہونے لگتی۔ ان کی انھیں مذمتوں کے نتیجے میں ہمارے دوست مولانا سید محمد سعد صاحب قاسمی جو دارالعلوم میں ہم سے سات سال سینئر تھے نے اپنی مسلم جلد ثانی کی اردو شرح جو قریب التکمیل تھی اور انھوں نے بڑی محنت سے فتح الملھم وغیرہ سے استفادہ کر کے لکھی تھی نیز اس وقت مسلم جلد ثانی کی کوئی اچھی شرح بھی دستیاب نہیں تھی جلا ڈالی۔ مولانا کی تقریر ایسی ہی ہوتی تھی کہ حساس طبیعت والے کچھ بھی کر گزرتے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ہم لوگوں کو تھوڑی موٹی عربی زبان آجاتی تھی۔

7۔ مولانا اخلاص وللہیت اور رجوع الی اللہ کی طرف بھی توجہ دلاتے۔ وہ خود بھی شب بیدار اور دل زندہ شخصیت تھے۔ ہم جب 2011۔2013 میں مرکز المعارف ممبئی میں طالب علم تھے تو حضرت مولانا وہاں تشریف لائے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے خطاب کرکے اسی بات پر توجہ دلائی کہ انگریزی پڑھ کر یہ مت سمجھو کہ زیادہ دنیا حاصل کرو گے بل کہ نیت کو درست کرو اور خدمت دین کو ترجیح دو، دنیا خود بخود آجائے گی۔ معصوم مرادآبادی کے مولانا کے حوالے سے مختصر مضمون سے مولانا کی شب باشی کی کیفیت سے آگاہی ہوئی۔ واقعی مولانا کی زندگی ایک مثالی اور آئیڈیل زندگی ہے جس میں معصوم صاحب نے لکھا ہے کہ رات میں جب بھی آنکھ کھلی مولانا کو بیدار اور الحاح و زاری کرتے ہوئے پایا۔ نیز لکھا کہ میں نے مولانا سے زیادہ کسی کو اللہ کے سامنے آہ و زاری کرنے والا نہیں دیکھا۔

8۔ مولانا کو اکابر دیوبند اور ان کے علوم سے خاص شغف تھا۔ وہ قاری طیب صاحب سے غایت درجہ متاثر تھے۔ کہتے تھے کہ وہ اتنے بڑے عالم تھے کہ وہ اگر پنکھے کو آسمان کہہ دیتے تو اسے بھی وہ دلائل سے ثابت کردیتے۔ حضرت تھانوی کے علوم و معارف سے بھی وہ بہت متاثر تھے۔ ان کی کتابیں اور ان کے علوم سے استفادے کی بھی تلقین کرتے۔

9۔ صالح تنقید مولانا کی ذات کا خاص وصف تھا۔ چوں کہ مولانا حساس بہت تھے لہذا وہ طلبہ کی کجی اور ان کی بے راہ روی بل کہ لاپرواہی و غفلت پر بہت کڑھتے۔ اسی لیے طلبہ جب کوئی غفلت کرتے تو مولانا کی چھٹی حس بیدار ہو جاتی اور وہ گھنٹہ بھر اس پر تقریر کر ڈالتے۔ اسی کڑھن میں اور طلبہ کی یہ کیفیت دیکھ کر وہ بسا اوقات اپنے محسن و مربی مولانا وحیدالزمان کیرانویؒ کے بارے میں کہتے بھی کہ مولانا نے طلبہ کو بنانے کے پیچھے اپنے آپ کو ضائع کردیا اور چند لغات کے علاوہ وہ کوئی علمی اور تصنیفی کام نہ کرسکے۔ مگر میں کسی کے پیچھے نہیں پڑا؛ اس لیے میں نے بہت سی کتابیں لکھ لیں اور کچھ تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دے پایا۔

مولانا جب طنز و تنقید پر آمادہ ہوتے اور ذوق و وجدان کے خلاف کوئی بات دیکھتے تو ایسے ایسے جملوں کو وجود بخشتے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے۔ اور مخاطب یہ سمجھنے سے قاصر رہتا کہ وہ ہنسے یا روئے۔

10۔ مولانا کا ظاہری سراپا بھی قابل تقلید تھا۔ انھیں دور سے دیکھنے والا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں ان کی ظاہری ہیئت کا کوئی فرد نہیں تھا۔ وہ تدریس کے لیے ہمیشہ شیروانی، لمبی ٹوپی اور چمچماتے جوتے میں ملبوس ہو کر آتے۔ سردی گرمی سے اس میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ ہم لوگ کبھی کبھار جب ان کے گھر پڑھنے جاتے تو وہاں صرف سادہ کرتا اور کبھی کبھار گول ٹوپی زیب تن کیے رہتے۔ مولانا کی یہ ہیئت بھی سبق ہے کہ ایک استاذ کو کس طرح کی ظاہری ہیئت اختیار کرنا چاہیے۔

آج جب کہ مولانا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ضرورت ہے کہ ان کے شاگرد ان کی مثال بنیں اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر نہ صرف عمل کریں بل کہ دوسروں تک بھی پہنچائیں اور ان کے علمی و ادبی مشن کو آگے بڑھائیں۔

اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اپنے جوار خاص میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے باقی ماندہ علمی کارناموں کی تکمیل فرمائے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں