مولانا اسرار الحق قاسمی
شام میں2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے چھ سال کے عرصے میں تین لاکھ سے بھی زائد انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں‘اور تقریباً پونے دو کروڑ کی آبادی والے اس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خانماں برباد ہوکر یہاں وہاں بھٹکنے پر مجبور ہے اور لاکھوں لوگ محفوظ پناہ کی تلاش میں ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ ہزارہا صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ اس وقت شام کے سفاک اور ظالم حکمراں بشار الاسدنے اپنے ظلم وستم کی انتہا کرتے ہوئے حلب میں ’باغیوں‘ کو کچلنے کے نام پر زیادہ سے زیادہ ہلاکتوں کو یقینی بنانے کے لئے جس طرح بے قصور اور معصوم بچوں‘ عورتوں‘ ضعیفوں اور مردوں کو بے رحمانہ طریقے سے مہلک کیمیکل گیسوں کا استعمال اوربموں کی بارش کرکے موت کے گھاٹ اتارا ہے اس سے دنیا کے سبھی حساس دل بوجھل ہو گئے ہیں‘ آنکھیں اشکبار اور زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ صرف بموں اور کلورین گیسوں نے ہی شہریوں کی جانیں نہیں لیں بلکہ ہزارہا محصور لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے بھی موت کی آغوش میں پہنچ گئے اور نہیں پہنچ سکے تو انہیں بمباری کرکے اسپتال کے بستروں پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کھنڈر میں تبدیل اس شہر میں اسد کے فوجیوں نے خواتین کی بھی بڑے پیمانے پر عصمت دری کی۔ موجودہ عہد کے اس سنگین ترین المیہ پر تاریخ کے بڑے بڑے درندوں ہلاکو‘ چنگیز خان‘ ہٹلر‘ مسولینی کی بدروحیں تو شرما ہی گئی ہوں گی‘ عالمی سفارتی تقاضوں کا خیال رکھنے کے لئے ہی سہی ‘اسلام اور مسلمانوں سے ازلی دشمنی رکھنے والے ملک اسرائیل نے بھی شامی شہریوں کی ہلاکتوں اور تباہیوں کے تناظر میں اسد کو جلاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے کیمیکل ہتھیاروں سے اپنے ملک کے ہی شہریوں کو ہلاک کرنے والے اس ظالم حکمراں کو فی الفور ہٹانا ہی نہیں بلکہ ملک بدر کر دیا جانا چاہئے۔
ترکی ٹیلی ویزن پر نشر کیا گیا ایک ویڈیو ان دنوں ہندوستان میں بھی وائرل ہوگیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ حلب کے ایک اسپتال میں ایک زخمی بچے کی سرجری ہورہی ہے لیکن اسپتال کے پاس انستھیسیا نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے بیہوش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ بچے کی مکمل ہوش و حواس میں ہی سرجری شرروع کردی گئی۔ اس معصوم فرشتہ کے زندہ جسم پر ڈاکٹروں کے تیز نشتر چلتے رہے اور بچہ کلام اللہ کی لگاتار تلاوت کرتا رہا تاکہ اس میں آپریشن کی تکلیف برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوسکے۔ جس وقت اینکرس ٹیلی ویزن پریہ خبر پیش کررہے تھے‘ اس وقت وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ اور جس نے بھی یہ ویڈیو دیکھا ہوگا‘ اسکا دل پاش پاش ہو گیا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ اللہ دشمنوں کو بھی یہ دن نہ دکھائے۔ ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون اپنے بچوں اور اہل خانہ کی لاشوں کے پاس کھڑی ہوکر آہ و بکا کرتے ہوئے دنیائے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن کیا اس خاتون کی آہ و بکا کا کوئی اثر ہوگا؟ کیا عالمِ انسانیت یا کم کاز کم عالمِ اسلام کا ہی ضمیر جاگے گا؟ آج دنیا میں جس بے حسی کا عالم ہے اس کے مدنظر کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔تھوڑی دیر کے لئے دنیا اظہار افسوس کرے گی لیکن پھر وہی خامشی اور بے حسی ۔ اس سے قبل گزشتہ سال تین سالہ شامی بچہ ایلان کردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی لرزہ خیز تصویر نے بھی دنیا میں بے چینی پیدا کردی تھی لیکن اسکے بعد بھی کچھ نہیں بدلا تو آگے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ شامی بچہ اپنے والدین کے ساتھ جنگ زدہ ملک شام سے امن کی تلاش اور بہتر زندگی کی امید میں سمندر کے راستے سے کینیڈا جانے کی کوشش میں اس وقت غرقاب ہوگیا تھا جب سمندر میں اٹھنے والی بڑی موجوں اور گنجائش سے زیادہ سواریوں کی وجہ سے ربڑ کی کشتی پلٹ گئی تھی۔ بعد میں ننھا ایلان ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں پڑا ملا تھا اور اس کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات میں چھپی تھی۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سبکدوش ہونے والے سکرٹری جنرل بان کی مون نے شام کے شہریوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت کی وجہ سے اس ملک کو جہنم سے تشبیہ دی ہے اور اس عالمی ادارے کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے شام کے عوام کو مایوس کیا اور اس ملک میں امن تبھی قائم ہوگا جب اسد کے مکروہ جرائم کا احتساب ہوگا۔ لیکن کیا ان کا اتنا کہنا کافی ہوگا؟ کیا اس عالمی ادارے کی ذمہ داریوں میں یہ شامل نہیں ہے کہ وہ نسل کشی کو روکے اور ایسے حکمرانوں اور ملکوں اور قوموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جو عالمی امن و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ناحق قتل و غارتگری میں مصروف ہیں۔ اگر یہ ادارہ شام کے ظالم حکمراں کا احتساب کرنے میں ناکام رہا ہے جو مسلسل چھ برسوں سے اپنے ہی شہریوں کو موت کے گھات اتار رہا ہے تو آخر کس سے مداخلت کی امید رکھی جاسکتی ہے؟
امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے اور پوری دنیا کے معاملات سے اس کی دلچسپی بھی خوب ہے اور متعدد ملکوں کے معاملات میں اس کی مداخلت بھی اکثر و بیشتر ہوتی رہی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے ہی امریکی انتظامیہ بار بار بشار الاسد کو بے دخل کرنے پر زور دیتا رہا ہے لیکن عملی قدم اٹھانے کی کوشش کبھی نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسد کے مظالم بڑھتے رہے اور ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔ آج حلب تباہ و برباد ہو گیا ہے‘ پورا شہر کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسپتال‘ مساجد تک بمباری کی مار جھیل کر زمین بوس ہوچکے ہیں۔ آج امریکہ کے صدر اوبامہ شام کے ابتر حالات کے لئے خود کو ذمہ دار محسوس کررہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ بعض مغربی ممالک بھی بظاہر ندامت کا اظہار کررہے ہیں۔
حلب کے متاثرین کے اعزاز میں پیرس کا ایفل ٹاور ایک رات کے لئے روشن نہیں کیا گیا‘ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنس میں وزیروں نے کوئی اقدام نہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ پورے یورپ میں حلب میں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی دردناک کارروائیوں اور عالمی ادارے کی ناکارکردگی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین بشار الاسد اور اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اوباما کو بھی قاتل قرار دے رہے ہیں کہ دنیا کا طاقتور ترین شخص ہونے کے ناطے ان سے حالات کو قابو میں کرنے کی توقع تھی جسے انہوں نے پورا نہیں کیا۔ شام کی حکومت کو روس اور ایران کی مدد کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے اور انہیں قاتل قرار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں ایرانی شہریوں کی موجودگی بھی دیکھی گئی۔ ایران عرب لیگ اور یورپی یونین نے بھی شام میں جاری تشدد کی مذمت کی ہے۔ لیکن اب ان باتوں کا کیا فائدہ؟ اب ضرورت ان اقدامات کی ہے جن سے شام کے لوگوں کے مصائب ختم ہوں اور انہیں امن و سکون کی زندگی میسر ہو۔
بشار الاسد اور ان کا ساتھ دینے والے روس اور ایران جیسے ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب دنیا کا کوئی مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہو سکتا۔ طاقت کے استعمال سے صرف ظلم اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے‘ انسانیت خون میں لت پت ہوتی ہے اور شہر اور ملک کھنڈر میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن اس سے مسئلہ کا عارضی حل بھی برآمد نہیں ہوتا بلکہ حکمرانوں کی زیادتیاں حال کے ساتھ ملک و قوم کے مستقبل کو بھی تباہ و برباد کردیتی ہیں۔ بشارالاسد نے جس سفاکی سے اپنے شہریوں کا خون ناحق کیا ہے‘ اس کے اثرات ایک طویل عرصہ تک قائم رہیں گے اور امن دور دور تک نظر نہیں آئے گا۔ یقینی طور پر انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک پُرامن شام کی از سر نو تعمیر کے لئے انہیں بے دخل کیا جانا ہی نہیں بلکہ انہیں ان کے سنگین جنگی جرائم کے لئے بین الاقوامی قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا بھی بیحد ضروری ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ سرِدست کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
(مضمون نگارممبرپارلیمنٹ اورآل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)