مفتی ابوذرقاسمی
اللہ نے قران شریف میں ارشاد فرمایا :اے لوگو! اپنے پرور دگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس جان سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔اور ان دونوں سے بہت مردو اور عورتوں کو پھیلایا ۔(سورہ نساء)
اس روئے زمین کے اول انسان آدم اور حواہیں ۔ان دونوں سے نسلیں جاری ہوئیں ۔مرد وجو د میں آئے اور عورت بھی ، اللہ نے انسان کی پیدائش کے بعد زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا، اس کے لئے قانون اور ضابطہ بنائے ۔حقوق بیان فرمائے ،مردوں کے حقوق مرد کی حیثیت سے اور عورتوں کے حقوق عورت کی حیثیت سے اور یہی عدل ہے۔
لیکن انسانوں میں سے بہت سے لوگوں نے ناشکری کی، حدود کو عبور کرکے قوانین اسلام کو پاؤں تلے روند دیااور خود ساختہ قانون کو راہ نجات سمجھا۔آسمانی قوانین پر بے جا اعتراضات وسوالات چسپا ں کرنے لگے کہ اسلام میں عورت محبوس و مقید ہے،ہر طرح کے حقوق و فرائض سے محروم ہے ۔اس جینا خود کا جینا نہیں بلکہ وہ دوسرے کے اشارہ کی پابند ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ مردوں کا طرفدار رہے ۔ان کے حقوق کامحافظ و نگراں ہیں ۔حالانکہ حقیت اس کے برعکس ہے۔قوانین اسلام نے عورتوں کو عزت ، آزادی اور جینے کاحق عطا کیا۔مسلم پرسنل لا بورڈ تو اسلامی شریعت کا ترجمان ہے۔معترضین ،مستشرقین بورڈ کے مرتب کئے ہوئے ’’مجموعہ قوانین اسلامی ‘‘ہی کی ورق گردانی کرلیں تو ان کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں ۔مجوعہ کے دفعات پیش خدمت ہیں۔
دفعہ 2 میں درج ہے نکاح مرد وعورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیاگیا معاہدہ ہے۔دونوں کو دو فریق تسلیم کیاگیا نہ کہ مردو ں کو مالک اور عورتوں کی ملکیت ،نکاح میں عورت کے اختیار اور اس کی رضا کی مکمل رعایت کی ہے۔اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے دفعہ 89 میں کہاگیاہے کہ اگر کسی معاملہ میں باپ، داد ا کی خود غرضی، ذاتی مفاد کی شمولیت ثابت ہو تو نابالغ لڑکی کانکاح کیاہو الازم نہیں ہوگا۔دفعہ 96میں یہ درج ہے کہ لڑکی کا ولی بلاعذر معقول نکاح سے گریز کریں تو قاضی یا ولی ابعد کو اختیار ہے کہ اس کا نکاح کرادے۔دفعہ 109میں یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت سے ہی کیاجائے ،ورنہ عقد دورست نہیں ہوگا۔دفعہ 122میں عورت کو اختیار سپرد کیاگیا کہ شوہر اگر بیوی کے ہم پلہ مثلاً دین داری ،تقویٰ،بیوی کی حیثیت کے مطابق نفقہ پر قدرت نیز دونوں میں مالی حیثیت کی تفاوت اس قدر جولڑکی کے لئے باعث عار ہے تو اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔نیز دفعہ 123میں ہے شوہر ایسا حرفہ اور پیشہ سے وابستہ ہو جو معاشرہ میں کمتر اور گھٹیا شمار کیا جاتاہو تو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے۔
مہر کے سلسلہ میں یہ دفعات درج ہیں ۔مہر وہ مال ہے جو مرد پر عورت کیلئے عقد نکاح یا جنسی تعلق قائم ہونے کی وجہ سے واجب ہوتاہے۔دفعہ 133میں اس کو لازم قرار دیاگیاہے کہ عورت سے نکاح کرتے وقت مہر کی نفی کردی جائے یا مہر کاتذکرہ نہ ہو یا متعین نہ ہو تب بھی مہر مثل واجب ہوجاتاہے۔دفعہ 146میں ہے کہ مہر مثل خاندان کی دوسری عورتوں کے مہر کی مقدار کو کہتے ہیں ۔دفعہ 155میں عورت کو اختیار دیاگیاہے کہ اگر مہر معجل ہو تو قبل از ادائیگی شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینے سے روک سکتی ہے۔اسی طرح مجموعہ میں عورت کے نفقہ کے سلسلہ میں احکام تحریر ہیں تاکہ عورت کے حقوق کی پامالی نہ ہو۔دفعہ 168میں ہے کہ بیوی مسلمان ہو یاکتابیہ ،امیر ہو یاغریب ،تندرست ہویابیمار بہر صورت نفقہ شوہر پر واجب ہے۔دفعہ 171میں کہاگیاہے کہ بیوی اپنے میکے میں ہو اور اپنے شوہر کے یہاں جانے سے منکر نہ ہو تو نفقہ شوہر پر واجب ہے۔دفعہ 185میں عورت کو حقدار بنایاگیاہے کہ شوہر کے غائبانہ میں اس کے مال سے نفقہ وصول کریں ،بالفرض کوئی مال نہ ہو تو دفعہ 186میں ہے کہ بیوی قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرے اور یہ قرض کی ادائیگی بذمہ شوہر ہے۔دفعہ 186میں یہ بتایاگیا کہ اگر بیوی آئندہ کے لئے اپنے شوہر کو نفقہ سے سبکدوش کردے یا معاف کردے تو اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں یعنی آئندہ اسے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔دفعہ 191میں یہ حکم دیاگیاہے کہ موسم کے اعتبار سے عورت کو لباس دے۔دفعہ 192میں یہ بتایاگیاہے کہ شوہر پر اپنی صلاحیت کے مطابق بیوی کی رہائش کے لئے ایساعلیحدہ مکان دینا ضروری ہے جو عورت کے لئے مناسب حال اور بنیادی ضرورتوں پر مشتمل ہو۔دفعہ 208میں ہے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے ۔ایذاء رسانی سے اجتناب کرے ۔دفعہ 209-11میں اس حکم کا پابند کیا کہ جنسی خواہشات کی تکمیل میں اعتدال اور فطری طریقہ اختیارکرنے۔دفعہ 214میں یہ کہاگیاہے جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ہر بیوی کے ساتھ کھانے ،رہائش ،لباس اور شب باشی میں یکساں سلوک کیا جائے ۔دفعہ 217-18میں یہ مذکورہے کہ قبل از طلاق اصلاح حال کی کوشش کرے یعنی اولاً افہام وتفہیم کا معاملہ کرے ،بے اثر ثابت ہو توشوہراپنا بستر علیحدہ کرلے۔اگر یہ بھی بے فائدہ ہوتوہلکی مار مارے جس سے چوٹ اور نشان کا اثر نہ ہو چونکہ مقصدتنبیہ ہے نہ کہ ایذاء رسانی۔ اگر یہ بھی صورت بے سود رہی تو دونوں جانب سے حکم مقررکرکے اصلاح حال کی کوشش کرے ۔اگر یہ تدبیر بھی ناکام ہوجائے تو دفعہ 219میں ہے کہ ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں صحبت نہ کیاہو۔اور دفعہ 220میں بتلایاگیا ہے کہ شوہر کے لئے جائز نہیں کہ بیوی کواپنے گھر سے نکال دے ۔دفعہ 221میں یہ بتایاگیاہے کہ لڑکی کو والدین یا دیگر رشتہ دار کی جانب سے نکاح کے موقع پر جو سامان دیا جاتاہے وہ جہیز کہلاتاہے۔دفعہ 223میں واضح کردیاگیا کہ لڑکی یا اس کے والدین یا اس کے اقارب سے نقد یا سامان وغیرہ کا مطالبہ کرکے لینا رشوت ہے جوحرام ہے۔حتیٰ کہ دفعہ 224میں یہ حکم بھی درج ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت صراحتہً مطالبہ نہ کیاگیاہو لیکن عرف ورواج میں اگراس کو شرط نکاح کادرجہ حاصل ہو تو ایسے سامان اور نقد لینا بھی رشوت کے قبیل سے ہے جو جائز نہیں ۔
اس کے باوجود اگر عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو خلع کا مستقل ایک باب جو 4دفعات پر مشتمل ہیں کہ عورت وجہ بتائے بغیر علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔اور اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہو تو فسخ وتفریق کا باب جو 324سے346دفعات پر مشتمل ہیں ان دفعات میں مشکلات کا حل بتایاگیاہے کہ شوہر کی جانب سے مظلوم ومجبور ہیں، علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
نیز عورت کو کسب معاش سے آزاد کرکے ان کے حقوق کی حفاظت کی ہے کہ بیٹی ہے تو نفقہ بذمہ والد ہے ،بیوی ہے تو نفقہ علیٰ الزوج ہے ،ماں ہیں تو نفقہ اولاد کے ذمہ ہے مزید کرم یہ ہے کہ وراثت میں وارث بنایاہے کہ بیوی، بیٹی ، بہن ،ماں ،دادی اور نانی وغیرہ کو جدا جدا موقع پر حقوق دیئے گئے ہیں اور عدم ادائے حقوق پر تنبیہ کی گئی ہے ۔یہ مختصر ایک خاکہ ہے تفصیل کے لئے مجموعہ قوانین اسلامی کا مطالعہ کریں ۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے خواتین کے حقوق کو دفعات کے تحت مرتب کرکے ان کے حقوق کی پوری حفاظت کی ہے۔اسلامی شریعت میں عورتوں کی حفاظت کس طرح کی گئی ہے اس کامختصر خاکہ آپ نے مطالعہ کیا۔جہاں تک دیگر مذاہب اور روشن خیال لوگوں کی بات ہے تو انہوں نے سب سے زیادہ رسوا عورتوں کو کیاہے ۔کسب معاش ہی لے لیجئے ،روزگار کی جستجومیں عورتیں در در کی ٹھوکریں کھارہی ہیں ،اشتہارات ،ایڈورٹزمنٹ میں ایسی برہنہ تصویریں کے شرم سے نگاہیں جھک جاتی ہیں ۔فلم ،ٹی وی،اسپورٹس ،کال سینٹر ،بیوٹی پالرس میں کس کس جگہ کا تذکرہ کیاجائے آج سب سے زیادہ بے عزت عورت ہی کو کردیاگیاہے۔جس کو ہر مذہب نے گھرکی زینت بتا یا،گھر کی دیوی بنایا،گھر کی چہار دیواری اس کے لئے حسن قرار دیا آج وہی عورت اسکرین پر برہنہ اور نیم عریاں لباس میں نظر آرہی ہیں ۔
اسلام تمام مذاہب میں سب سے اعلیٰ اور برتر ہے ۔اس نے عورتوں کوعریانیت سے بچایا اور ہر موقع پر اس کی تاکید کی ہے کہ وہ پردہ کاخیال کرے اور ان عورتوں کی طرح نہ پھریں جیسے زمانہ جاہلیت میں عورتیں پھرا کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نفقہ کی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ مردوں پر ڈالاہے۔اور اس کے لئے اس نے ہرطرح سے مردوں کو پابند بنایاہے۔اور اس بات کی بھی پابند کیاہے کہ ان کے حقوق کی حفاظت کرے ۔
مسلم پرسنل لا اسلامی شریعت کا ترجمان ہے ۔اس لئے وہ اسلام کے احکام کو ہر موقع پرلوگوں کے سامنے پیش کرتاہے اور اس کی مکمل ترجمانی کرتاہے ۔ساتھ ہی یہ اسلامی شریعت کی حفاظت کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے ۔ اس پر کسی طرح کا الزام لگانا اور اعتراض کرنا صحیح نہیں ہے۔اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اہل علم سے معلوم کرنا چاہئے ۔یا کتابوں کے مطالعہ سے اطمینان حاصل کرنا چاہئے ۔اسلامی شریعت کا مطالعہ ذہن ودماغ کو کھولتاہے اور اس سے روشنی حاصل ہوتی ہے ۔آج روشنی حاصل کرنے کا زمانہ ہے جس سے بہت سے لوگ محروم ہیں۔(ملت ٹائمز)
مسجدحراء نیواعظیم آباد کالونی سیکٹر ڈی ،پٹنہ
رابطہ نمبر:9546890103