عبیدالکبیر
ان دنوں سماجی رابطے کی سائٹ فیس بک پر پڑوسی ملک کے ایک کرکٹر کی ایک ٹویٹ پر ناظرین کے تبصروں کا چرچا ہے۔ یہ موضوع اگر چہ اس قدر کا مستحق تو نہ تھا کہ اس کے لئے ہمیں کچھ لکھنے اور آپ کو کچھ پڑھنے کی زحمت اٹھانی پڑتی تاہم یہ سلسلہ میڈیا میں کچھ اس راہ پڑ چل پڑا ہے جسے دیکھتے ہوئے کچھ باتوں پر اظہار خیال بہر حال ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مشہور خبر رساں ایجنسی بی، بی، سی لندن نے اپنی سائٹ پر اس خبر کو ایک نمایاں شان سے شائع کیاہے اور اس پر دو مسلم طالبات کے ساتھ اپنے فیس بک پیج پر ایک رواں پروگرام بھی نشر کیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسانی معاشرے میں کم وبیش ہر سطح پر اختلاف رائے اور اس کا اظہار ایک معمولی چیز ہے۔ شعورانسانی کے ارتقا کایہ لازمی نتیجہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے میں مختلف جذبات واحساسات اور رجحان کے تحت الگ الگ جہات اور نظریات اپنائے۔ کسی بھی مسئلے میں کامل اتفاق ایسی دنیا میں بہت مشکل ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ غور وفکر کی صلاحیتوں سے لیس ہوں۔ بی ،بی، سی کے زیر اہتمام منعقدہ نشست میں اور اس کے رد عمل میں جو تبصرے نیٹ پر گردش کررہے ہیں ان کا خلاصہ ہم بہ آسانی ایک مصرعے میں یوں ادا کرسکتے ہیں کہ
پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا
مگر موجودہ دور میں عام لوگوں کو اظہارِ خیال کی آزادی کے جو مواقع حاصل ہیں اس میں تبصرہ اور جواب الجواب کا سلسلہ اتنا مختصر بھی بھلا کیسے ہو سکتا تھا۔ چنانچہ بات سے بات نکلی اور کچھ احباب نے حرف مطلب پر اظہار خیال کرتے ہوئے حجاب کے مسئلے پر اسلامی تعلیمات اور مسلم سماج کی عملی حالت پر اپنے ذہنی افتاد اور قلبی واردات کو پیش کیا۔ تبصرہ کرنے والے لوگوں میں الگ الگ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب شامل ہیں، پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے اور شاید کچھ بے پڑھے لکھے بھی ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے اپنے غم وغصے کا بھی اظہار کیا۔ جہاں تک جذباتی تاثرات کی بات ہے تواسے ہم رد عمل کی نفسیات سے تعبیر کرسکتے ہیں مگر جو لوگ اس مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیں انھیں حجاب سے متعلق اسلامی ہدایات کا مطالعہ کرنا چاہئے جو بہت واضح ہیں اور انتہائی بلیغ، شستہ اور شائستہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ پردہ کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے دعوے کی حیثیت سے اس خیال کا بارہا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے کہ پردہ در اصل ایک ایسا مجمل حکم ہے جس کی تفسیر میں کوئی قولی ہدات یا عملی نمونہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں پایا نہیں جاتا ہے۔ ایسے خیالات رکھنے والے اپنے دعوے کے جواز کے لئے اسلام کو دو قسم پر تقسیم کرتے ہیں۔ ان حضرات کے بقول “اللہ کا اسلام اور ملا” کا اسلام دو الگ الگ چیزوں کے نام ہیں۔ یہ طرز فکر جس کی پشت پر عقل وشعور اور دانش وبینش کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے ہمیشہ سے ان لوگوں کی ڈھال بنتا رہا ہے جو اللہ ‘کو’ تو شاید مانتے ہوں مگر اللہ’ کی’ ماننے کا کوئی ارادہ ان کے اندر بظاہر باقی نہیں بچا ہے۔ایک مشہور شخص (طارق فتح )جسے اسلام اور مسلمانوں پر دریدہ دہنی کی حدتک بھپتیاں کسنے کا گویا لائسنس حاصل ہے اس کے فکر کی بنیاد ہی اسی دوئی پر قائم ہے۔آئیے ذرا اس مسئلے میں ‘ملا’ کے کردار کا جائزہ لیکر دیکھیں کہ فی الواقع’ ملا کا اسلام ‘نامی کوئی چیز دنیا میں پائی جاتی بھی ہے یا نہیں۔ تاریخ میں یہ المیہ ہمیں ضرور دیکھنے کو ملتا ہے کہ مذہبی طبقے کی اجارہ داری نے سوسائٹی کو بہت سے خطرات سے دوچار کیا ہے۔ اس کی ایک مثال بعثت نبوی کے زمانے میں اہل کتاب کے پیشوا ؤں کا کردار ہے ، نزول قرآن کے زمانے میں عرب کے معاشرے میں سبھی لوگ مشرک نہ تھے۔ بلا شبہ شرک اس دور کا ایک المیہ تھا مگر باوجود اپنے مشرکانہ عقائد و رسوم کے وہ خود کو ملتِ ابراہیمی سے منسوب کرتے تھے۔ اس وقت اہل کتاب کے نام سے ایک ایسی کمیونٹی بھی موجود تھی جس کے پاس آزاد خیال طبقے کے بقول “اللہ کا اسلام” موجود تھا مگر انھوں نے اپنے حلقہ اثر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں کچھ اس انداز سے تاویلیں کی تھیں جس کی بنا پر حق وباطل گڈ مڈ ہو کر رہ گئے تھے۔ قرآن میں جا بجا اس خیانت پرمذکورہ گروہ کو ملامت کیا گیا ہے۔ اسلام کے ابتدائی عہد میں جو قوم حق و باطل کو خلط ملط کرنے میں سب سے زیادہ مجرم قرار پائی وہ یہود کے مذہبی رہنما تھے جن کے پاس حضرت موسیؑ کی شریعت توریت کی شکل میں موجود تھی۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے چلیئے کہ پچھلے انبیا ؑ کی تعلیمات کے ساتھ ان کے پس رو افراد کا یہ عمومی سلوک ایک تاریخی حقیقت ہےحتی کہ جن لوگوں نے یہ خیانتیں کیں وہ تھے تو سب مسلمان ہی (اگرچہ بگڑے ہوئے تھے) مگر اسلام سے دوری کا یہ عالم تھا کہ وہ مسلمان کے بجائے اپنے پیغمبرجیسے عیسائی یا اپنی قومیت جیسے یہودی کی نسبتوں سے جانے جاتے ہیں۔ گزشتہ انبیاؑ کی شریعتوں کے ساتھ ایسے واقعات کیوں پیش آئے اس کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے تاہم اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلی تمام شریعتیں وقتی اور زمانی تھیں۔ ان میں سے کسی کو بھی مستقل اور دائمی حیثیت اللہ نے دی ہی نہیں۔پچھلی ساری شریعتیں یقیناً اپنے زمانے کے تقاضوں کی حد تک تو کامل تھیں مگر بعد والوں کے لئے انھیں اللہ نے بطور شریعت باقی نہیں رکھا چنانچہ ان کو کالعدم ہونا تھا اور ایسا ہوا بھی۔ یہ شرف تنہا محمد ﷺ کے حصے میں آیا کہ آپ کی شریعت کو ہر زمانے کے لئے مکمل اور مستقل حیثیت عطا کی گئی۔ جیسا کہ عرض کیا گیا پچھلے انبیا ؑ کی تعلیمات ان کے پیروکار کے ہاتھوں مسخ ہوئے اور آخر میں محمد ﷺ کی شریعت کو قیامت تک کے لئے اللہ تعالی نے بطور دین چن لیا۔ اس سے صاف طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اب دین کی تعلیمات جن لوگوں کے سپرد کی جا رہی ہیں وہ ان کے ساتھ سابقہ انبیا ؑ کے پیروکاروں کا سا سلوک نہیں کریں گے ۔ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی قابل ضمانت چیز کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے بذات خود اس شریعت کی حفاظت کا وعدہ فریایا ہے۔اس حقیقت کے تئیں کسی قسم کے تذبذب کا رویہ اس شخص کا بہر حال نہیں ہو سکتا جسے خدا پر ایمان ہو اور اسلام کو ایک سچا مذہب ماننے میں وہ کوئی عار نہ محسوس کرتا ہو۔ یہ ایک خاص چیز ہے جس کو اگر سمجھ لیا جائے تو عقل سلیم رکھنے والے کسی شخص کے لئے اسلام کو دو خانوں میں بانٹنے کا چارہ نہیں رہ جائے گا۔ شاید کچھ لوگ اسلام کو بھی سینٹ پال کی مسیحیت پر قیاس کر لیتے ہیں جس کے تحت یورپ میں پوپ کا ایک مستقل بااختیار بلکہ جابر ادارہ وجود میں آیا ۔عیسائی سماج میں پوپ کے ادارے کو جن اسباب کی بنا پر تقویت ملی ان میں اور بہت سی وجہوں کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کی اخلاقی کمزوریوں کا بھی خاصا دخل ہے۔اس کے بر خلاف اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسے کسی ادارے کی مثال موجود نہیں ہے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمانوں کی بداعمالیاں بہر حال اس پستی تک نہیں پہنچیں جس کا تجربہ دوسرے لوگوں کو ہے۔مسلم سماج میں علما ء کی حیثیت عام حالات میں شارح قانون کی ہے نہ کہ قانون ساز کی ۔ احکام شریعت سے شناوری کی بنیاد پر آج بھی مختلف مسائل میں علما اپنا جو موقف مسلم سماج کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ عین اسلام کی تعلیمات ہوتی ہیں ۔ اب بعض حضرات کا اعتراض ہے کہ آخر ‘ملا’ ہی کو اس کا حق کیوں حاصل ہو،کوئی اور ادارہ یا گروہ اس کا اہل کیوں نہ تسلیم کیا جائے بے بعنی ہے۔ یہ اعتراض جسے بڑے تمطراق سے پیش کیا جاتا ہے در اصل ایک انتہائی بودا اشکال ہے اور کسی نہ کسی طور سے اس فکری انتشار کا غماز ہے جس میں مبتلا ہونا ہر اس شخص کے لئے تقریباً یقینی ہے جس نے اپنی طبعی افتاد ،فکری کجروی یا حرص وہوا کی اقتدا میں خدا بیزاری کا نیا مذہب دریافت کیا ہے۔ ان فریب خوردہ لوگوں کی مجبوری یہ ہے کہ یہ لوگ جس ڈور کو سلجھانا چاہتے ہیں اس کا سرا ابھی تک ان کے ہاتھ نہیں لگا ہے۔ ان میں سے بعض نے تو تنگ آکر سرے سے اس ‘سرے ‘کا ہی انکار کر دیا مگر کیا اس سے مسائل حل ہو گئے ؟ نہیں بلکہ اس کے تباہ کن نتائج وقت کے ساتھ ساتھ فزوں تر ہیں۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ کسی بھی نظام یا ریاست کے تمام مسائل میں اس سے وابستہ لوگوں کی کل آبادی کو ایک جیسے اختیارات نہیں دیے جا سکتے ۔کیا کسی ایک ملک میں بھی ایسا منظر ہم تلاش کر سکتے ہیں جہاں قانون کی تشریح کو عام جنتا کا حق تسلیم کیا جاتا ہو۔کیا کسی بھی ملک کا قانون جو لازماً وہاں کی سرکاری زبان میں لکھا ہوا موجود ہوتا ہےاور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم دستیاب ہوتے ہیں اپنے حدود سلطنت میں رہنے والے ہر فرد کو یہ اختیا ر دیتا ہے یا دےسکتا کہ ہر آدمی اس کی تشریح کرتا پھرے۔آج کی دنیا کا یہ عمومی دعوی ہے کہ اس میں نوع انسانی کو تاریخ کے طویل دورانیے میں سب سے زیادہ آزادی اور حقوق حاصل ہیں مگر کیا اس دور آزادی میں بھی مہذب ممالک میں رائج مثالی جمہوریتوں میں تفریق اختیارات (Separation of Power) کا نظام عملی طور پر نافذ نہیں ہے ؟ یہ حقیقت بجائے خود مسلم ہے کہ کوئی بھی نظام اختیارات کی تفریق اور فرق مراتب کا لحاظ کئے بغیر ایک لمحہ بھی قائم نہیں رہ سکتا، اس قسم کی آزادی برتنے کے بعد ملک اور قوم کا انتظام تو خیر بڑی بات ہے پرائمری کلاس تک کا کوئی اسکول بھی نہیں چلایا جاسکتا ۔کیا اس واضح نکتہ کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں نظر انداز کیا جا سکتاہے؟ ایک مہذب انسانی سماج میں ایسا کرنے کی کوئی سبیل کبھی نہیں ہوتی۔اس طرح کی بے لگامی کا راست نتیجہ ہوگا کہ سوسائٹی سخت انارکی کا شکار ہو جائے۔ اب جو لوگ اس حقیقت کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کردیتے ہیں ان کا ذہن رسا اگر “ملا کا اسلام ” جیسی کوئی اصطلاح وضع کرتا ہے تو چنداں تعجب کی بات نہیں۔کیا یہ سستی فکر اور بیمار ذہنیت کسی سنجیدہ موضوع پر کلام کرنے کا حق رکھتی ہے؟ اس غلط انداز فکر سے متاثر لوگوں کے لئے اس بات کی گنجائش ہی کہاں باقی ہے کہ وہ حساس موضوعات پر ہونے والے مباحث میں اپنی بالغ نظری کی داد وصول کریں ۔اس صورت حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان دانشوروں کو جس مقام پر رکھا جاتا ہے وہ ان کا اصلی مقام نہیں ہے ۔عام طور پر مباحثوں میں ذہنی اضطراب کا شکار ایسے لوگوں کو ترجمان کی حیثیت دی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار بھی ہوتے ہیں ۔ مگر ایک غیر متعصب ناقد کو ایسے مسائل میں دیانت داری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ یہ روش بالکل درست نہیں کہ کسی بھی مسئلے کی تحقیق وتفتیش میں اس کے ماہرین کی بجائے اس سے بیزاری ظاہر کرنے والوں سے رجوع کیا جائے۔ اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ پردہ کی حیثیت کیا ہے تو ہمیں سر دست اگر مآ خذ سے رجوع کرنے کی فرصت میسر نہ بھی ہو تو کم ازکم کسی ایسے شخص سے پوچھنا چاہئے جو پردہ کے نظری پہلو پر بصیرت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے عملی پہلو کا بھی قائل ہو ۔یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہم پردہ کا سوال اکثر بے پردہ ،نیم پردہ یا پردہ بیزار کسی آدمی سے کر بیٹھتے ہیں اور بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تحقیق کا حق ادا کردیا۔ اس قسم کے بحث و مباحثے جن میں تحقیق وتجزیہ کے بجائے ایک قسم کی ریہرسل پر اکتفا کرکے کسی غیر مستند شخص کی رائے کو فیصلہ سمجھ لیا جاتاہے بجائے خود اپنی کمزوری اور شکست کا اعتراف ہے۔ علمی دیانت کے ضروری اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تویہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مذہبی معاملات میں پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے جس طبقے کی ‘اجارہ داری ‘ سے بعض لوگ نالاں ہیں وہ یا تو اس حقیقت کو سمجھتے نہیں یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ پہلی صورت میں تو افہام وتفہیم کی پوری گنجائش موجود ہے مگر جو لوگ دوسری صورت کا مصداق ہیں ان سے کچھ عرض ومعروض شاید نتیجہ خیز ثابت نہ ہو۔ ان کی نظر میں غالباً’ ملا’ کا سب سے بڑا جرم اقبال کی زبان میں یہی ہے کہ
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند