مہنگائی یار چھونے لگی ہے اب آسماں، دلی کے تخت پر کسے بیٹھا دیا گیا

کلیم الحفیظ، دہلی
جب سے ملک میں زعفرانی فاشزم کی حکومت آئی ہے تب سے عوام کی فلاح و بہبود اور غربت و جہالت کے ازالے کے سارے پروگرام ٹھنڈے بستے میں چلے گئے ہیں۔ کہنے کو تو ملک 5جی کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے۔ شہروں کی گلیوں میں وائی فائی کے ٹاور لگ گئے ہیں، مگر ملک کے باشندوں کی اکثریت دو وقت کی روزی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ گزشتہ سات سال میں کروڑوں نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد سے بازار اپنے معمول پر نہیں آئے ہیں۔ پرائیوٹ سیکٹر میں ملازمین کی تعداد میں کمی کیے جانے اور سرکاری اداروں کو نجی ہاتھوں میں دئیے جانے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر تعلیم و صحت سے متعلق تمام اشیاء کے دام روز بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ایک بڑی آبادی رہزنی کا راستا اپنائے گی یا خود کشی کرلے گی۔
مہنگائی کی قیامت خیزی کے باوجود اہل ملک میں کوئی بے چینی نظر نہیں آرہی ہے۔ کسی بیوپاری سنگٹھن کی طرف سے بازار بند کا نعرہ نہیں دیا جارہا ہے، کوئی ٹریڈ یونین ہڑتال کا اعلان نہیں کررہی ہے، لال جھنڈے والے بھی نہ جانے کہاں چلے گئے جو غریبوں کی مسیحائی کا دم بھرتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو زعفرانیوں نے اپنی مکارانہ سیاست سے دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے۔اپوزیشن کو اپنے خیمے بچانے بھاری پڑ رہے ہیں وہ غریبوں کی کٹیا کیسے بچائیں گے۔ مذہبی قیادت اللہ ھو اور رام نام جپنے میں مست ہے، اس لیے کہ ان کے عقیدت مندوں کی جانب سے نذر و نیاز اور چڑھاوے مسلسل پیش کیے جارہے ہیں، پھر بے چارے اللہ والوں کو دنیاداری سے کیا مطلب؟ کوئی بھوک اور افلاس سے مرتا ہو تو مرے انھیں تو مرنے والا بھی فاتحہ اور کرم کانڈ کے نام پر کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔ نہیں معلوم ہمارے معاشرے سے انسانی محبت کی اعلیٰ قدریں کہاں گم ہوگئیں؟ وہ جرأت مندی کہاں چلی گئی جو مہنگائی کے آسمان پر جانے سے پہلے آسمان سر پر اٹھا لیتی تھی؟
ہم صرف پیٹرول ڈیزل کا رونا رو رہے ہیں، کیوں کہ اس کے دام کی خبر اخبارات میں آجاتی ہے ،مگر سرسوں کی تیل کی خبر اخبار کا عنوان شاذ و نادر ہی بنتی ہے۔2014 میں پیٹرول کی قیمت 70روپے لیٹر تھی جو اب ایک سو روپے ہے لیکن سرسوں کا تیل اُس وقت 65 روپے لیٹر تھا جو آج 210 روپے لیٹر ہے۔ سیمنٹ کی بوری 2014 میں 195روپے کی ملتی تھی اب 410 روپے میں دستیاب ہے۔ اسٹیل کا ریٹ 3600روپے کنٹل تھا، آج 6500 روپے ہے۔ ریت کی پوری ٹرالی 1500روپے میں مل جاتی تھی، آج چار گنا قیمت دینا پڑتی ہے۔ 350 روپے کا گیس سلینڈر آج 900 روپے کا ہوگیا ہے۔ دالیں جو 40 یا 50 روپے کلو تھیں، آج 150روپے سے 180تک پہنچ گئی ہیں۔ ہر طرح کی سرکاری فیس میں اضافہ ہوگیا ہے، ڈرائیونگ لائسنس جو 2014 میں صرف 250 میں بن جاتا تھا، اِس وقت 5500 روپے سرکاری فیس دینا پڑتی ہے، زمینوں کی قیمتیں بھی بڑھیں اور رجسٹری کا خرچ بھی۔ 2014میں 27 کروڑ خاندان خط افلاس سے نیچے تھے، آج 35کروڑ ہیں۔ 2014میں ملک ڈھائی لاکھ کروڑ کا مقروض تھا آج 25لاکھ کروڑ کا مقروض ہے۔ اس کے باوجود ہم سورہے ہیں،کہنے کو تو ہماری ملی اور سماجی تنظیموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگرعوام کی مشکلات پر ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ حکومتیں جو غربت کو دور کرنے کے نام پر اپنا انتخابی منشور جاری کرتی ہیں وہ غریبوں کو ہی مٹانے کا منصوبہ بنا نے لگتی ہیں۔ دہلی کی حکومت بڑے زور و شور سے اعلان کرتی ہے کہ اس نے عوام کو مفت بجلی پانی دے رہی ہے ، اس نے کورونا کے زمانے میں دس لاکھ افراد کو دونوں وقت کھانا دیا ہے ، کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس نے دہلی کے عوام کو بھکاری بنا دیا ہے۔ غریبی ختم کرنے کے بجائے غریبوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت جس نے وعدہ کیا تھا کہ کرپشن کو دور کرے گی ،کالا دھن واپس لائے گی، ہر سال ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکری دے گی، خوش حال بھارت بنائے گی، ہرت کرانتی لائے گی، آتم نربھرتا پیدا کرے گی،ملک کو وشو گرو بنائے گی ، اس کے یہ وعدے محض جملے ثابت ہوئے۔اسے مسلم مہیلاؤں کی فکر ستائی اور طلاق بل لائی، اس نے شروع سے ہی مذہبی فرقہ پرستی کا راگ الاپا اور آخر کار رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا، کشمیریوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے جسم کے ٹکڑے کردیئے ۔ گائے کے نام پر لنچنگ کو ہوا دی، ہر وقت اور ہر جگہ ہندو مسلم کی سیاست کی۔ کیا یہی دیش بھکتی ہے ؟
ملک کی کئی ریاستوں میں آئندہ سال چناؤ ہونے والے ہیں۔ ہر چناؤ کو بی جے پی کمیونل بنا دیتی ہے ، میری رائے ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہوکر عوام کے سامنے حقیقی مسائل رکھنا چاہئے۔ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے ، یہ صحیح وقت ہے اگر ہماری سیاسی اور سماجی جماعتیں مہنگائی کے خلاف آواز بلند کریں، احتجاج کریں، سڑکوں پر آئیں ، جیل بھرو آندولن کی تحریک چلائیں، عدم تعاون اور ستیہ گرہ کا اعلان کریں۔ کیا گاندھی جی کا نام استعمال کرنے والے گاندھی جی کا کردار فراموش کرچکے ہیں، کیا رام منوہر لوہیا کی تصویر لگانے والے ان کے سماجی آندولن کو بھول چکے ہیں۔ کیا جمہوریت میں عوام کے مسائل اٹھانا، آئین کے دائرے میں رہ کر حکومت پر تنقید کرنا، اس کو متوجہ کرنا بھی جرم ہے؟زباں بندی کا یہ ماحول ہماری بے حسی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی دنیا میں مگن ہے۔تعلقات اور رشتے بھی سوشل میڈیا پر نبھائے جارہے ہیں۔ ہمیں اس دنیا سے باہر آنا ہوگا۔ بھوک ، افلاس اور مہنگائی کی مار جھیل رہی انسانیت کے درد کو سمجھنا ہوگا۔
ملک میں مہنگائی کا ناگ ڈس رہا ہے اور زعفرانی حکومتیں مذہبی فرقہ پرستی میں لگی ہیں۔ کبھی آبادی کنٹرول کے نام پر بل لایا جارہا ہے، کبھی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنایا جارہا ہے، سیاست داں تو سیاست داں رہے مجھے حیرت ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے قابل جج صاحبان کو بھی آئین میں درج یکساں سول کوڈ ہی یاد ہے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحت ان کی مذہبی آزادی یاد نہیں؟ کیا بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ یکساں سول کوڈ ہے ، غربت، جہالت، فاقہ کشی، لنچنگ اور مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں۔ معز ز عدالت نے یکساں سول کوڈ کا نیا شگوفہ چھوڑ کر حکومت کو ’نیا سیاسی ٹول فراہم ‘کردیا ہے جس کے ذریعے عوام کی توجہ آسانی سے بنیادی مسائل سے ہٹائی جاسکتی ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ہمیں کورونا سے مرنے والے کم و بیش دس لاکھ افراد کے اہل خاندان کے مسائل بھی دیکھنا چاہئے۔ جس میں تقریباً 50 لاکھ افراد بے سہارا ہوئے ہیں۔ آنے والی تیسری لہر کی تیاریوں کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ غریبوں کے ٹھنڈے ہوتے چولہوں پر بھی نظر رکھنا چاہئے اور انھیں بھیک نہیں ان کا حق دینا چاہئے۔ ایک جمہوری فلاحی ریاست کی اصل ذمہ داری شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا ہے۔ مذہبی آزادی، ملک کی سا لمیت، ایکتا کا تحفظ، افلاس کا ازالہ ا ور خوش حال بھارت کی تعمیر ہماری اولین ترجیح اور حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔
مہنگائی یار چھونے لگی ہے اب آسماں
دلی کے تخت پر کسے بیٹھا دیا گیا