طالبان آ گئے، طالبان چھا گئے

عاصمہ شیرازی
کہا جا رہا ہے کہ اب کی بار طالبان پہلے جیسے نہیں بلکہ بدل گئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ ذہین، کہیں زیادہ سفارتی معاملات کو سمجھنے والے، دُنیا کو ساتھ لے کر چلنے والے، معاملہ فہم، سُلجھے ہوئے، ٹھہرے مزاج کے cool cool سے طالبان اب پہلے جیسے نہیں بلکہ یکسر بدل چُکے ہیں۔
دنیا حیرت میں ہے کہ طالبان کی فتوحات بغیر جدید اسلحے، بغیر باضابطہ کمان اور بغیر باقاعدہ انتظام کے کیسے ممکن ہوئی۔ اشرف غنی کی حکومت کے تین لاکھ فوجی، اسلحہ، جدید کوبرا جہاز، رات کو دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ہیلی کاپٹرز کہاں گئے؟
حیرت تو یہ بھی ہے کہ اشرف غنی کو کابل کے نہ گرنے کا اتنا یقین کیوں تھا کہ وہ چند گھنٹے قبل تک معمول کے کام کرتے رہے یا وہ خود کو دھوکا دیتے رہے۔ کابل کی سرزمین نہ چھوڑنے کے دعوے کرنے والے اشرف غنی کسی آشیر باد پر رفوچکر ہوئے یا مستقبل کے کسی نئے منصوبے کا حصہ بننے کے لیے مفرور کر دیے گئے؟ پندرہ اگست کو کابل میں جو بھی ہوا اُس نے گذشتہ بیس دنوں میں امریکہ اور اتحادیوں کی 20 سال کی پالیسیوں کو ایکسپوز کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سُپر پاور نے یوں ہی طالبان کا سہولت کار بننا تھا تو 20 برس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیوں جھونکے؟ رات کے اندھیرے میں کابل کی روشنیوں کو تیرگی کے سوداگروں کے حوالے ہی کرنا تھا تو چراغ کو اُمید کیوں دلائی؟
طالبان کی فتح نے امریکہ کی ناکام پالیسیوں پر کئی سوالات اُٹھا دیے ہیں؟ اسے سُپر پاور کی ناکام پالیسی کہیں گے یا خطے میں اپنے تسلط کے لیے ایک نئے المیے کا انتظام؟ چین کے خلاف کسی بڑی منصوبہ بندی کے مہرے یا خطے میں ایران اور پاکستان کے لیے کسی نئے پہرے دار کا انتظام؟
امریکہ کو شکست ہوئی ہے یا امریکہ نے شکست کھائی ہے؟ حقیقت کیا ہے یہ مستقبل کی کسی خفیہ دستاویزات کا حصہ بنے گا یا ہالی ووڈ کی کسی نئی فلم کا نیا سکرپٹ۔۔۔ تاہم افغان عوام ایک نئی قیمت چُکانے کو تیار ہیں؟ نئے سیٹ اپ کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ’بدلے ہوئے‘ طالبان انسانی حقوق کا کس قدر خیال رکھیں گے؟ خواتین اور اقلیتیں کیا تحفظ پائیں گی؟ بچیاں سکول جائیں گی یا خوف کا مستقبل آنکھوں میں لیے خوابوں کی کرچیاں سمیٹیں گی؟ اب کی بار طالبان کس طرح ہزارہ برادری کو اعتماد دیں گے؟ مزار شریف کے قتل عام کے خوف سے کیسے نکالیں گے؟
دلِ خوش فہم بار بار دلاسہ دے رہا ہے کہ شاید ایک مہذب دُنیا کے طالبان اب کی بار مختلف ہوں۔ اس بار خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کا وعدہ پورا کر سکیں، اقلیتیں اور لسانی گروپ اپنے حقوق پا سکیں۔ کئی سوالات اور اُن سے جُڑے خدشات اس وقت تک ایک مبہم سا خاکہ پیش کر رہے ہیں۔
طالبان کی اچانک ’فتوحات‘ نے عالمی نقشے پر قوتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں مگر وزیراعظم کے افغانستان کے غلامی کی زنجیریں توڑنے سے متعلق بیان نے اشارے ضرور دیے ہیں۔
طالبان کا خطے میں اقتدار آنے والے دنوں میں جہاں عالمی طاقت کے توازن کا فیصلہ کرے گا وہیں پر طاقت کے ارتکاز کے رجحان کو بھی جنم دے گا۔ پہلے سے موجود قوتیں اختیارات پر گرفت کیے ہوئے ہیں، ایسے میں پاکستان بھی مزید اتھاریٹیرین ازم کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد جس طرح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اس سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ طالبان ہر جگہ موجود ہیں۔ کابل میں فتح کے جھنڈے گاڑھتے جبکہ کمزور ریاستوں میں کمزور طبقات پر حکمرانی جتاتے طالبان۔
بہرحال طالبان آ گئے ہیں اور طالبان چھا گئے ہیں۔ سب بدلے ہوئے طالبان کے گُن ضرور گائیں مگر یاد رکھیں کہ افغانستان میں شروع ہونے والا اقتدار ایک نئی آزمائش لائے گا۔ وطن عزیز کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ علاقے میں ایک نئی گیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ طالبان کے سٹیک پر کچھ نہیں مگر وہ سٹیک ہولڈر جو ذاتی مفادات کو سامنے رکھے ہوئے ہیں اُنھیں حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا ورنہ طالبان آئے کہیں اور ہیں اور چھا کہیں اور جائیں گے۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردو)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں