ملک کی بڑی آبادی کا خود کو غیر محفوظ تصور کرنا انتہائی خطرناک، جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے مولانا ارشد مدنی کا خطاب
نئی دہلی: آج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بد تر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور لڑکے اورلڑکیوں کے لئے اسکول و کالج کا قیام اور خاص طورپر لڑکیوں کے لئے دینی ماحول میں علیحدہ تعلیمی ادارے کا قیام و اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار پر تفصیل سے غور و خوض ہوا۔ اس اجلا س میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلۂ خیال کیا۔۔ لاک ڈاؤن میں جمعیۃ علماء ہند کی بے لوث خدمات، ریلیف و باز آبادکاری اور ملزمین کی قانونی اور سماجی مدد، تبلیغی جماعت پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد وغیرہ کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں جمعیۃ کی طرف نئے لوگوں کا رجحان بڑھا ہے، جس کی وجہ سے جمعیۃ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے لوگ بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں اور ہر صوبے میں جمعیۃ دفاتر سے نئے لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد مستقل رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریبا ایک کڑوڑ پندرہ لاکھ تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس ٹرم کی ممبر سازی کی مدت میں 15/اکتوبرتک کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دوچارکرکے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنادی گئی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خود جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی، کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تو وہ مدارس کیوں قائم کرتے؟ مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اور خاص کر بچیاں اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ارتداد کی مہم ہے جس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اور اس حوالے سے منظم شکل میں فرقہ پرست عناصر غیر مسلم نوجوانوں کو مسلم بچیوں کو ورغلانے کیلئے نہ صرف ہر طرح کی مدد فراہم کررہے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے، اس صورتحال پر اگر بروقت قدغن نہ لگائی گئی تو آنے والے دن انتہائی خطرناک ہوں گے۔ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی اس مسئلے پر غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دینی تعلیمات سے بے زاری اس کا بنیادی سبب ہے اس لئے جمعیۃ علماء ہند بااثر اور دولت مند لوگوں سے اپیل کرتی ہے وہ اپنے اپنے علاقوں میں لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اسکول اور کالج کا انتظام کریں، اپنی بہو بیٹیوں کی عزت وآبرو اور ایمان کی حفاظت کے لئے یہ اس وقت کی شدید ضرورت ہے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ بے حیائی اورفحاشی کسی مذہب کا شیوہ نہیں ہے دنیا کے ہر مذہب میں اسے برا سمجھا گیا ہے اس لئے کہ ان سے ہی معاشرہ میں بے راہ روی پھیلتی ہے اس لئے ہم اپنے غیرمسلم بھائیوں سے بھی یہ گزارش کریں گے کہ وہ اپنی بچیوں کو بے حیائی اور بے راہ روی سے دور رکھنے کیلئے مخلوط تعلیم دلانے سے گریز کریں اور ان کے لئے الگ سے تعلیمی ادارے قائم کریں۔
انہوں نے مزید کہاکہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھاپانے سے قاصر ہیں، انہوں نے آگے کہاکہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے لئے عملی طورپر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس میں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ پر اپنی گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک جمہوری ملک میں عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حکومت کا اس لاقانونیت پر خاموش تماشائی بنا رہنا یہ ایسا رویہ ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے، اگر ملک میں یہ لاقانونیت یوں ہی بڑھتی رہی تو اس کی آگ میں نہ صرف اقلیتیں، دلت اور ملک کے کمزورعوام ہی نہیں جلیں گے بلکہ ملک کی ساری ترقی اور نیک نامی بھی خاک میں مل جائے گی، اس لئے ہر محب وطن کا ملک سے محبت کا یہ تقاضہ ہے کہ مذہب ونسل سے بلند ہوکرمسلم اور غیر مسلم متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں،مولانا مدنی نے ماب لنچنگ کے حوالہ سے کہا کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندطریقہ سے ہورہا ہے اوراس کا مقصد مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیکر اقلیت کے خلاف اکثریت کو متحد کرنا ہے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات میں اچانک اس وقت شدت آجاتی ہے جب کسی ریاست میں الیکشن ہونے والا ہوتا ہے چند ماہ بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے جان بوجھ کر ماب لنچنگ کی جارہی ہے اور شرانگیزیوں میں اضافہ ہورہا ہے، انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اپنی ساکھ اور ملک کی قدیم تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کے لئے اس کے خلاف عملی میدان میں کام کرے اورکہا کہ ماب لنچنگ کے واقعات سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حا صل ہے؟ اسی لئے ان کے حوصلے بلند ہیں، اس لئے تمام سیاسی پارٹیاں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولرکہتی ہیں میدان عمل میں کھل کرسامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدامات کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔ اجلاس میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہارکیا گیا کہ ان دنوں آسام میں ایک سازش کی تحت خالص مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور جو بستیاں پچاس برس سے زیادہ سے سرکاری زمین پرآباد ہے ان کو جبراًخالی کرایا جارہا ہے اور ان کے مکانا ت منہدم کئے جارہے ہیں ایسے خانہ بربادلوگوں کو بسنے کے لئے کوئی متبادل جگہ بھی نہیں بتائی جارہی ہے، مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر ان حالات سے نمٹنے کے لئے اگر مفید ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔دوران اجلاس مولاناحلیم اللہ ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے کوکن مہاراشٹرکے سیلاب میں جمعیۃ علماء کی اب تک کی خدمات کی مکمل تفصیل پیش کی۔ سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے اپنی یونٹیوں کے تعاون سے فی الحال مرکز کے علاوہ ایک کروڑدس لاکھ روپے سے جمعیۃ علماء مہاراشٹرکی امداد کرنا طے کیا۔ اجلاس میں ورکنگ کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی ہے اصلاح معاشرہ کی کوششوں کومنظم طریقہ سے پورے ملک میں پھیلا دی جائے، دیہاتوں میں اور شہروں کے مسلم علاقوں میں جہاں سے ایسے واقعات بکثرت سننے میں آتے ہیں وہاں خصوصی توجہ دی جائے، اہل مدارس کو بھی ایک تحریر لکھ کر متوجہ کیا جائے اور اکابر علماء کے اسفار کا نظام بنایا جائے اس کے لئے سردست دس لاکھ روپے کا بجٹ مختص کردیا گیاہے۔
اجلاس میں دہلی فسادات میں بے قصورمسلم نوجوانوں پر کئے گئے 137مقدمات کی پیروی اور پیش رفت پر غورکیا گیا، ابھی تک جمعیۃکے تعاون سے 90 ضمانتیں ہوچکی ہیں اور باقی کیسوں کی ضمانت کی اپیل سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں داخل ہے، ان مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ ظہیرالدین بابر چوہان کی سربراہی میں وکلاء کی ایک ٹیم کررہی ہے۔ مجلس عاملہ کی کارروائی صدر محترم مدظلہ کی دعاپر اختتام پزیر ہوئی۔ اجلاس میں صدرمحترم کے علاوہ جن اراکین نے شرکت کی ان کے نام یہ ہیں۔ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، مولانا عبدالعلیم فاروقی نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا سید اسجد مدنی، مولانا عبدالرشید قاسمی، مولانا عبداللہ ناصر قاسمی، مولانا اشہد رشیدی، مفتی غیاث الدین اور الحاج سلامت اللہ۔اجلاس میں جن مدعوئین خصوصی نے شرکت کی ان کے نام یہ ہیں مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا حلیم اللہ قاسمی بھونڈی، مولانا محمد خالدقاسمی، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مفتی عبدالرازق مظاہری، مولانا بدراحمد مجیبی، مولانا محمد راشد قاسمی، مولانا شمس الدین قاسمی، مفتی اشفاق احمد۔






