ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی
سپریم کورٹ نے پیر کے روز مذہب، ذات، نسل، برادری یا زبان کے نام پر ووٹ کے حصول کو کالعدم قرار دیا ، یہ فیصلہ پانچ ریاستوں میں ہونے جارہے ریاستی انتخابات سے عین قبل لیا گیا جہاں پر ذات پات نسل واد اور مذہب کے نام پر الیکشن کی روایت رہی ہے ۔ کہا گیا ،
) The Supreme Court outlawed on Monday seeking votes in the name of religion, caste, race, community or language, a landmark judgment ahead of crucial assembly elections in five states wher kie faith and caste are top poll issues.(
ذیل کی سطور میں چند معروضات پیش کی جارہی ہیں جسے کئی فاضل تجزیہ نگاروں نے بھی پیش کیا ہے جس میں قابل ذکر بھائی تیج سنگھ راشٹریہ صدر امبیڈکر سماج پارٹی شامل ہیں ، امید ہےمنصف مزاج حضرات اور سیکولر ملک میں سب کی حصہ داری کا درد رکھنے والے لوگ ضرور پسند فرمائیں گے اور اپنی مفید آراء سے بھی نوازیں گے
معزز جج صاحبان،
سپریم کورٹ آف انڈیا
نئی دہلی۔
مذہب اور ذات پات کو لے کر جو آپ نے فیصلہ سنایا ہم آپ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں. نسل پرستی نے ہی ہمارے ملک کو برباد کیا ہے انسانوں میں قومتیں انسانیت کے نام پر داغ اور کلنک ہیں اور ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ کو احساس تو ہوا کہ ملک میں ذات پات بہت ہے اور اس کا خاتمہ لازمی ہے۔
معزز محترم شاید آپ جانتے ہوں گے کہ اس ملک میں ذات ایک حقیقت ہے جہاں بغیر ذات پوچھے نہ تو کوئی پانی پیتا ہے اور نہ کوئی پلاتا ہے. یہ ملک زراعت میں توکم اور ذات ونسل پردھان زیادہ نظر آتا ہے.
آپکے فیصلہ پر نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے معزز سپریم کورٹ کوذات کے نام سے ہی نفرت ہے، اور اگر یہ صحیح ہے تو صرف اس کے استعمال پر الیکشن میں ہی پابندی کیوں؟ ذات کی اور ہر طرح کی شکل وصورت پر پابندی کیوں نہیں؟ ذاتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا کیوں مناسب نہیں سمجھا گیا؟
معزز جج صاحب، آپ کا یہ حکم کسی بھی طرح سے مکمل نہیں ہے. لگتا ہے یہ حکم بی جے پی کو بچانے کی غرض سے آر ایس ایس دفتر میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں بیٹھ کر سنایا گیا ہے کیونکہ تمام مذاہب کی لعنت زدہ ذاتیں جو انسانیت پر کلنک مانی جاتی تھیں اب ملک میں جمہوریت کے چلتے وہی ایک طاقت بن چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ لعنت زدہ ذاتیں اب اقتدار کی طرف بڑھ رہی ہیں اور انہیں یہ اچھی طرح سمجھ میں آ چکا ہے کہ بغیر اقتدار کے اس ملک میں شراکت ممکن نہیں ہے.
ادھر انتہائی درجہ کی اقلیات ، اعلی ہندو ذاتیں (برہمن، چھتري اور ویشیہ) نے بھی اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ ملک میں ذات پات کی وجہ سے ان کی دال زیادہ دن تک اب گلنے والی نہیں یعنی کہ آنے والے کچھ ہی دنوں میں انہیں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑے گا پھر وہ ساری بدمعاشیاں نسل کے نام پر کرنا بھول جائیں گے. براهمواد، سامنتواد، سرمایہ دارانہ نظام، نسل پرستی اور ہندو دہشت گردی ملک کی وہ مهاماريا ں ہیں جن مکمل خاتمہ لازمی ہے۔ ان مہاماریوں کے مرکز میں صرف اور صرف ذاتیں ہی ہیں جن کو ختم کئے بغیر ملک کا بھلا ہونے والا نہیں ہے.
معزز جج صاحب آپ کے علم میں ہےکہ سپریم کورٹ میں درج فہرست ذات اور قبائل اور دیگر پسماندہ الفاظ آئینی ہیں جن کے استعمال پر آپ روک نہیں لگا سکتے اور مسلمان لفظ تو ذات کی عکاسی ہی نہیں کرتا ، تو پھر آپ اس لفظ پر کس طرح پابندی لگائیں گے معزز محترم؟لگتا ہے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں ذات اور مذہبی بدنیتی شامل ہے اوریہ یقینا نامکمل ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو ہدف بنا کر لکھا اور سنایا گیا ہے جو ذات پات کے نظام کے صدیوں سے شکار رہے ہیں. کاش اس حکم کو سنانے سے پہلےمعزز ججوں نےاپنے گریبان میں جھانك كر دیکھا ہوتا کہ سپریم کورٹ میں کتنے جج درج فہرست ذات ، قبائل اور دیگر پسماندہ ذاتوں سے ہیں تو شاید اس طرح کے فیصلہ کو قطعی منظور نہ کرتے؟
واضح طور پر پر یہ لگتا ہے کہ صدیوں سے ستائی ہوئی قومیں اب اقتدار کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہیں انتہائی اقلیت اعلی ذات ہندو اب زیادہ دنوں تک اپنے بھرمجال میں پھنسا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہ حکم بھی اسی برهموادي، اور نسل پرست سوچ کی غماز ہے. عجیب بات ہے کہ جو لوگ نسل پرستی کے شکار ہیں انہیں ہی نسل پرست اور جو لوگ فرقہ واریت کا شکار ہیں انہیں فرقہ پرست کہا جاتا ہے.
آئین اور دستور قلم بند کرنے والے بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ “اچھوتوں کی تحریک کا مطلب اعلی ذات-ہندوؤں کے خلاف کھلا جنگ ہونا چاہئے”
(A movement of the untouchables must mean an open war upon the Caste-Hindus “.).
کیا معزز جج یہ نہیں جانتے کہ ملک کی بہت بڑی آبادی کو نہ صرف قوموں میں تقسیم کیا گیا بلکہ انہیں اچھوت قرار دیا گیا ! لوگ کتے بلی جیسے جانوروں کو چھو سکتے تھے لیکن ان اچھوت قوموں کو نہیں. آر ایس ایس نہیں چاہتا کہ وہ تمام اچھوت شدر کہی جانے والی قومیں ملک کی اقتدار پر قابض ہوں، جس سے کہ وہ اقتدار کو استعمال کر کے ان کے ساتھ صدیوں سے چلی آرہی ناانصافی کا بدلہ نہ لےلے اسی لئے یہ حکم ان انتہائی درجہ کی اقلیات کی خاطر اعلی ذات کی قوموں کے لئے ضروری ہو گیا، ایسا ظاہر ہوتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ملک کے دانشور میری اس بات پر غور کریں گے اور ملک میں صدیوں سے ستائے ہوئے درج فہرست ذات ، پچھڑے ملک کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اقتدار پر اپنا قبضہ قائم کریں گے اور ملک کے سرمایہ، زمین، انتظامیہ، تعلیم ، صنعت، تجارت اور عدلیہ میں آپ کی شرکت یقینی بنے گی اور اپنے معاشرے کو گمراہ ہونے سے بچائیں گے.
*جنرل سکریٹری ہدایت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائیٹی لکھنؤ