اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام ’’ موجودہ نظام تعلیم اور انفارمیشن ٹکنالوجی ‘‘ پر یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد
نئی دہلی: (پریس ریلیز) جدید ٹکنالوجی کو تعلیم کے تمام شعبوں میں خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہئے، اسی راہ سے موجودہ تعلیم نظام میں انقلاب پیدا ہوسکتا ہے، آئندہ کل آج سے بہتر ہونا چاہئے، طلبہ کو زبان کے ساتھ اسکل اور ٹکنالوجی بھی اختیار کرنا چاہئے، تاکہ موجودہ کمرشیل مارکیٹ میں ان کی قدر ومنزلت اور ویلو محسوس کیا جائے، ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب نے اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقد ایک روزہ قومی سمینار کے افتتاحی نشست میں اپنی صدارتی خطاب میں کیا، انہوں نے ہیومن انقلاب پر بھی سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ انقلاب زندگی کے تمام شعبوں میں آیا ہے، تعلیم وحرفت، زراعت وصنعت اور سیاست ومعاشرت میں غیر متوقع ترقی حاصل ہوئی، پروفیسر موصوف نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ مدارس ویونیورسٹیز کے نصاب موجودہ چیلنجز اور تقاضوں کو پورا نہیں کرپارہے ہیں، ہم صرف کورس پڑھاتے ہیں نالج ومعرفت ٹرانسفر نہیں کرتے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ زمانہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے، لیکن ہم اساتذہ اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں ۔
افتتاحی نشست کے چیف گیسٹ ڈاکٹر ارشد اکرام صاحب شعبہ ایجوکیشن جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تعلیم وتدریس میں آئی ٹی کی اہمیت وضرورت پر اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ یہ تعلیم ومعرفت کا دور ہے، اس لئے آج کی انفارمیشن ٹکنالوجی کو اختیار کرکے ہی ترقی کی منزلیں حاصل کی جاسکتی ہیں، اگر آج ہم وہی تعلیم دیں اور وہی چیزیں سکھائیں جو ماضی میں پڑھاتے اور سکھاتے تھے تو گویا بچوں کے سنہرے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ آئی ٹی کی ضرورت تعلیم کے تمام شعبہ جات میں ہے، اس لئے طلبہ واساتذہ دونوں کو اس کا ادراک ہونا چاہئے اور اس کو اختیار کرنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ IT ہمیں خوشی عطا کرتی ہے، جب ہم کسی چیز کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ آئی ٹی ہمیں مختصر وقت میں فراہم کردیتی ہے تو ہمیں بے پناہ خوشی محسوس ہوتی ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی ہمیں بہت سے خرافات سے دور رکھ کر مصروف رہنا بھی سکھاتی ہے۔
افتتاحی نشست کے مہمان اعزازی ڈاکٹر عبید الرحمن فلاحی نے اسلام میں علم ومعرفت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نےعلم کو سب سے زیادہ اہمیت دی، قیدیوں کی رہائی کے لئے شرط لگائی گئی کہ وہ چند لوگوں کو تعلیم اور لکھنا پڑھنا سکھادیں۔
پروگرام کا افتتاح قرآن کریم کی تلاوت سے ہوا اور ڈاکٹر مولانا صفدر زبیر ندوی نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی تعلیم اور انفارمیشن کے میدان میں خدمات کو بھرپور طریقہ پر تعارف کرایااور مہمانوں اور شرکاء سمینار کا استقبال بھی کیا، جبکہ اس نشست کی خوبصورت نظامت اس قومی سمینار کے کنوینر ڈاکٹر محمد اجمل قاسمی نے کی۔
سمینار کی باضابطہ پہلی نشست ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی، جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبید الرحمن فلاحی نے انجام دیئے، اس نشست میں کل ۸ ؍اہم مقالات پیش کئے گئے:
ظہر کے بعد اس کی دوسری نشست ڈاکٹر مولانا اویس صدیقی نانوتوی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدارت میں منعقد ہوئی، جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر قاسم عادل ندوی نے سنبھالی، اس نشست میں کل ۱۱؍قیمتی مقالات پیش کئے گئے۔
اس کے بعد اختتامی نشست کی صدارت بھی ڈاکٹر مولانا محمد اویس صدیقی صاحب نے فرمائی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے انجام دیئے، مولانا اویس صدیقی نے اپنے صدارتی کلمات میں اس پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اکیڈمی کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کو سراہااورکہا کہ موجودہ دور میں رسول اللہ کی سیرت کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعدڈاکٹر خالد مبشر (شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ)، ڈاکٹر محسن عتیق، اور ڈاکٹر محمد ریحان ندوی نے سمینار کےتعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا اخیر میں مفتی امتیاز احمد قاسمی اور ڈاکٹر محمد اجمل قاسمی نے مشترکہ طور پر شرکاء سمینار کا شکریہ ادا کیا۔






