آسام کی درندگی بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کا شاخسانہ

اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یوپی اور دیگر ریاستوں میں انتخابات سے قبل اس قسم کے مزید واقعات ہوں، تاکہ بی جے پی ان کو بھنا سکے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا کر پھر اقتدار میں واپسی کر سکے۔

سہیل انجم
آسام میں دارانگ ضلعے کے سیپا جھاڑ علاقے میں سرکاری زمین پر سے مبینہ ناجائز قبضہ ہٹانے کے دوران جو درندگی ہوئی ہے اس سے پورا ملک لرز اٹھا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس وحشانیہ کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت ہو رہی ہے اور اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کے علاوہ خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کی گودی میڈیا اس لرزہ خیز واقعہ پر مجرمانہ انداز میں خاموش ہے لیکن عالمی میڈیا سراپا احتجاج ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں کے اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اس واقعہ کی مذمت کر رہی ہیں اور حکومت سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ہندوستان جیسے ملک میں جو کہ ایک مہذب ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ایسی درندگی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
جہاں ناجائز قبضہ ہٹانے کی مہم چلائی جا رہی تھی وہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ وہاں بنگالی بولنے والے مسلمان کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور وہاں ان کی نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ وہیں وہ لوگ کھیتی باڑی کرتے اور پرامن انداز میں اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ بی جے پی کی نظر گزشتہ کئی سالوں سے اس علاقے پر لگی ہوئی تھی۔ پہلے ان مسلمانوں کو این آر سی کے ہتھیار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چونکہ ان کے پاس تمام جائز دستاویزات موجود ہیں اس لیے ان کے نام این آر سی میں شامل ہوئے اور بی جے پی انھیں اجاڑنے کی سازش میں ناکام ہو گئی۔
لیکن اس نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ہندو ووٹروں سے یہ وعدہ کیا کہ اگر ان کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ ان مسلمانوں کو وہاں سے اجاڑ دے گی۔ دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد جب ہیمت بسوا سرما کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو وہاں کے لوگوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا۔ چونکہ سرما مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں اور وہ مسلم دشمن سیاست کی بنیاد پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں اس لیے انھوں نے موقع دیکھ کر مسلمانوں کو اجاڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کیا تھا۔ سیکڑوں پولیس جوانوں کی معیت میں وہاں انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ پہلے 21 ستمبر کو دھولپور نمبر ایک دو اور تین میں کارروائی کی گئی اور سیکڑوں خاندانوں کو اجاڑ دیا گیا۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو پھر کارروائی کی گئی۔
ان دونوں کارروائیوں کے نتیجے میں آٹھ سو مسلم خاندانوں کو اجاڑا گیا ہے جس کی وجہ سے پانچ ہزار افراد بے گھر بار ہو گئے۔ ان میں عورتیں بچے، بزرگ اور بیمار بھی شامل ہیں۔ ان خانما برباد افراد نے عارضی سائبانوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ اسی دوران وہاں بارش بھی ہونے لگی اور ان کو کہیں جائے پناہ نہیں ملی۔ یہ سب تو اپنی جگہ پر مگر 23 ستمبر کو سیپاجھاڑ میں ہونے والی کارروائی کے دوران جو بربریت ہوئی ہے اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ظلم و بربریت کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو میں ایسا نظر آرہا ہے کہ چند افراد جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں بندوقوں سے لیس پولیس والوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس پر پولیس نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص کے سینے پر گولی لگی اور وہ زمین پر گر گیا۔ اس کے گرتے ہی پولیس والے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور بری طرح لاٹھی ڈنڈوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ اس کارروائی کے دوران وہ شخص یا تو ختم ہو چکا ہوتا ہے یا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اسی دوران کیمرہ لیے ہوئے ایک فوٹو گرافر دوڑ کر اس کے بے حس جسم پر کودتا ہے اور بہت جوش و خروش میں اس کے جسم کو مکے مارتا ہے۔ اسے واپس بلایا جاتا ہے۔ لیکن وہ پھر ایسا کرتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد اسے پھر جوش آتا ہے اور وہ پھر دوڑ کر اس کے جسم پر کودتا ہے اور پھر مکے مارتا ہے۔ ایسا اس نے تین بار کیا۔ پھر اس کو پولیس والے وہاں سے ہٹاتے ہیں۔
بعد میں معلوم ہوا کہ اس شخص کا نام بجے شنکر بنیا ہے اور وہ ایک پیشہ ور فوٹو گرافر ہے۔ ضلع انتظامیہ نے انہدامی کارروائی کی ریکارڈنگ کے لیے ا س کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اس تشدد کی جانچ کے لیے ایک عدالتی کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ان کے جو بیانات آرہے ہیں یا پولیس والوں نے جو بیانات دیئے ہیں ان سے ایسا نہیں لگتا کہ ان لوگوں کو اس بربریت پر کوئی شرمندگی ہے۔ کوئی احساس جرم ہے۔ یا وہ اسے غلط اور برا سمجھ رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والے شخص کا نام معین الحق ہے اور اس کی عمر 33 سال تھی۔
وزیر اعلیٰ نے پولیس کارروائی کی حمایت کی ہے۔ پولیس کا بھی کہنا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا اپنے تحفظ میں کیا۔ حالانکہ جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے لیکن مذکورہ بیانات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جانچ کا حکم محض خانہ پری ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی رپورٹ آئی بھی تو اس میں مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ انھی کو ناجائز قابضین کہا جائے گا۔ پولیس نے اس واقعہ کے فوراً بعد کہا تھا کہ دو ہزار مسلح افراد نے پولیس پر حملہ کر دیا تھا۔ جبکہ ویڈیو میں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ چند افراد پولیس کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ان میں سے کئی نہتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی ہتھیار ہے تو صرف لاٹھی یا ڈنڈا ہے۔ کیا چند افراد سیکڑوں پولیس والوں کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن گئے تھے جو پولیس نے ان پر فائرنگ کی اور اس طرح دو افراد کی جان لے لی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ کسی خاطی کو سزا ہوگی یا جو فوٹو گرافر گرفتار کیا گیا ہے اسے کوئی سزا ملے گی۔ اسے چند دنوں کے بعد ضمانت مل جائے گی اور کوئی تعجب نہیں کہ اسے بی جے پی میں شامل کر لیا جائے اور اسے کوئی منصب مل جائے۔ کیونکہ جب سے ملک میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے ہر مجرم کو انعام ملا ہے۔ اگر وہ بی جے پی کا رکن نہیں ہے تو اسے بی جے پی میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر بی جے پی میں ہے تو اسے کوئی عہدہ دیا گیا ہے۔ اگر وہ پولیس والا ہے تو اسے ترقی مل گئی ہے۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کارروائی میں شامل پولیس والوں کو انعام دیا جائے گا اور ان کی ترقی ہو جائے گی۔
دراصل یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ بی جے پی نے ملک میں نفرت انگیز سیاست شروع کی ہے۔ اس نے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ان کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ موب لنچنگ کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ کہیں کوئی ویڈیو منظر عام پر آجاتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ ورنہ بہت سے واقعات چھپ جاتے ہیں ان کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی کی اس نفرت انگیز سیاست کی وجہ سے ہی مسلمانوں کو ہلاک کرنے یا ان پر تشدد کرنے والے خود ہی اس کارروائی کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر انھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی اس غیر قانونی حرکت پر کوئی ندامت ہونے کے بجائے فخر ہوتا ہے۔ وہ خود کو حکومت و انتظامیہ کی نگاہوں میں لانا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں انھیں بھی کوئی عہدہ دیا جائے۔
ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی کارستانیوں پر چپ رہتے ہیں۔ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیتے اور دوسری طرف آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک ہیں اور موب لنچنگ کرنے والے ہندو نہیں ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ بتائیں گے یہ پولیس والے کیا ہیں۔ وہ فوٹو گرافر کیا ہے۔ وہ لوگ ہندو ہیں یا نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ تو انسان بھی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔
اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کے آتے آتے اس قسم کے مزید واقعات ہوں گے تاکہ بی جے پی ان کو بھنا سکے اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا کر ایک بار پھر اقتدار میں واپسی کرے۔ چونکہ اس کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے اس قسم کی گھناونی حرکتوں سے ملک میں ہندووں اور مسلمانوں کو باٹنا چاہتی ہے تاکہ جذباتیت اور دھارمک ایشوز پر الیکشن لڑا جائے اور ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔ اگر اس ملک میں نفرت کی یہ سیاست اسی طرح چلتی رہی تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس وقت ملک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آج اپوزیشن جماعتوں پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ سرگرم ہوں اور اس حکومت کو اکھاڑ پھینکیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں