بہار میں آر ٹی آئی کا جواب عموماً نہیں ملتا، لیکن بہار گزٹ میں جاری نوٹیفکیشن سے کئی طرح کی باتیں سامنے آ جاتی ہیں، گزٹ ہی بدعنوانی پر زیرو ٹولرنس کی پالیسی سے متعلق حقیقت سامنے لا رہا ہے۔
سیلاب اور خشک سالی میں سرکاری ملازمین و افسر کس طرح کماتے ہیں، اس تعلق سے ہم اور آپ کہانیاں پڑھتے اور سنتے رہے ہیں۔ اب ان پر کسی کو حیرانی نہیں ہوتی۔ بدعنوانی میں زیرو ٹولرنس کا دعویٰ کرنے والے نتیش کمار کے دور میں ایک قدم آگے کی بات ہو رہی ہے۔ اب بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اتنے طویل وقت تک فائل گھمائی جا رہی ہے کہ شرائط و ضوابط بنانے والے تک بھول جا رہے ہیں کہ کسی گڑبڑی سے بچنے کے لیے بنایا گیا قانون نافذ بھی ہے یا نہیں۔ اس سے الزامات میں پھنسے افسر ریٹائر کر جا رہے ہیں اور ثبوت مانگنے و جٹانے کے نام پر وقت گزرنے سے کیس کمزور پڑ جا رہا ہے۔
بہار میں آر ٹی آئی کا جواب عام طور پر ملتا ہی نہیں ہے، ایسے میں بہار گزٹ میں جاری نوٹیفکیشن سے کئی طرح کی باتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ گزٹ ہی بدعنوانی پر زیرو ٹولرنس کی پالیسی کا سچ سامنے لا رہا ہے۔ 8 ستمبر کے بہار گزٹ میں 5 جنوری 2021 کا ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ سیلاب کنٹرول سب ڈویژن، ہاتھیدہ میں ستمبر 2015 کے سب ڈویژنل افسر کنال کشور کو سنگین الزامات کے عوض میں ’تنبیہ‘ کی سزا دی گئی۔ الزام تھا کہ ایگزیکٹیو انجینئر نے انھیں متاثرہ مقام یا دفتر کے کمرے میں نہیں پایا۔ موبائل بھی بند تھا۔ اس کی وضاحت طلب کرنے پر انھوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے دفتر میں پہنچ کر نازیبا رویہ اختیار کیا۔ اس کے علاوہ مہانے ندی پر پشتہ کی مرمت کا بل دستیاب نہیں کرانے کے سبب آگے کا کام متاثر ہوا۔ 6 سال بعد ڈسپلن شکنی اور عدم تعاون کے درجہ میں رکھتے ہوئے اس پر ’تنبیہ‘ کی سزا دی گئی۔ مطلب یہ کہ سیلاب کے وقت ڈیوٹی سے غائب پائے جانے، موبائل بند رکھنے اور بل میں تاخیر سے پشتہ کا کام متاثر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔
11 جنوری 2021 کا نوٹیفکیشن بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ 2013 میں آبپاشی ڈویژن-1، جموئی کے اسسٹنٹ انجینئر سیلاب سے متعلق جدوجہد کے کام میں مقرر کیے گئے، لیکن وہ نہ صرف غیر حاضر رہے بلکہ بغیر چھٹی کے غائب بھی ہو گئے۔ مطلب یہ کہ سیلاب کی ڈیوٹی پر نہیں پہنچنا جرم نہیں تھا، یا الزام لگانے والے ہی غلط تھے۔
14 جنوری، 2021 کے دو نوٹیفکیشن تو ان سب سے دو قدم آگے ہیں۔ اس میں سپول میں مغربی پشتہ زون، نرملی سے متعلق 2017 کے سیلاب کے پہلے دو معاملے میں اس وقت کے اسسٹنٹ انجینئر راجیش کمار اور اس وقت کے ایگزیکٹیو انجینئر ونود کمار کو الزام سے آزاد کیا گیا۔ فلائنگ اسکواڈ جانچ ٹیم نے جائزہ لینے کے بعد لکھا تھا کہ پشتہ میں کٹاؤ روکنے کے کام کے تحت کریٹر بولڈر پچنگ کام معیار کے مطابق نہیں کرا کر ٹھیکہ دار کو فائدہ پہنچایا گیا۔ بالو بھرے بیگ سے تقریباً ہر جگہ کام معیاری نہیں کیا گیا جس سے تیز بہاؤ سے پورا کام ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ بھی اخذ کیا گیا کہ بھرائی کا کام پورا نہیں ہوا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تقریباً ساڑھے تین سال تک محکمہ جاتی کارروائی کے بعد ’لرننگ‘ پیش کیا گیا جس میں الزام غیر مصدقہ ہوا۔ مطلب یہ کہ آنکھوں دیکھی ساری بات ساڑھے تین سال بعد غیر مصدقہ ہو گئیں۔ اسی وقت کے ایسے ہی کیس میں سرکاری جانچ کے دوران غلط پائے گئے سہرسہ کے مشرقی کوسی پشتہ زون کے اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر اوم پرکاش کو بھی اب الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔
آبی راستہ ڈویژن، مظفر پور میں 2010 میں چیف انجینئر رہے گنجا لال رام پر سنٹرل اسٹاک میں 5000 کیو میٹر بولڈر کی فراہمی میں بے ضابطگی کی جانچ محکمہ جاتی فلائنگ اسکواڈ زون، پٹنہ نے کی۔ 25 جولائی 2010 کو وضاحت طلب کی گئی تو افسر نے تقریباً ساڑھے چھ سال بعد 9 جنوری 2017 کو جواب دیا۔ اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال بعد 25 مئی 2018 کو سماعت ہوئی تو افسر نے بتایا کہ میں اکتوبر 2017 میں ریٹائر ہو چکا ہوں۔ افسر نے ایک محکمہ جاتی نوٹیفکیشن کی کاپی طلب کی اور 1986 کے ایک حکم کا حوالہ دے دیا۔ حالت یہ رہی کہ محکمہ ک و کابینہ سکریٹریٹ اور کوآرڈنیشن محکمہ یا محکمہ مالیات سے یہی نہیں پتہ چل سکا کہ یہ حکم نافذ بھی ہے یا نہیں۔ بالآخر اب افسر کے خلاف الزام ثابت نہیں مانتے ہوئے انھیں اس سے آزاد کر دیا گیا۔
(بشکریہ قومی آواز)