کلیم الحفیظ، نئی دہلی
حکمت و مصلحت جب حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو بزدلی اور کم ہمتی کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے۔بعض اوقات ہم اپنی بزدلی کی وجہ سے خاموشی کو بھی صبر جیسے خوبصورت نام سے موسوم کردیتے ہیں اور اپنے دل کو بھلے ہی مطمئن نہ کرپاتے ہوں لیکن اپنے معتقدین کو ضرور مطمئن کردیتے ہیں ۔ بد قسمتی سے بھارت میں ہماری صورت حال کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے۔آزادی کے بعد ہردن ہم زخم کھاتے رہے،ہر لمحے پیچھے دھکیلے جاتے رہے،ایک ایک چیز ہم سے چھینی جاتی رہی اور ہم حکمت،مصلحت اورصبر کا دامن تھام کر خوش ہوتے رہے۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ تقسیم ملک کے سانحے نے بھارت کی مسلم قیادت کو اتنا مضمحل کردیا تھا کہ وہ دفاع کی طاقت بھی کھوچکے تھے۔اس لےے کہ تقسیم کا ٹھیکرا بھی ان کے سر پر پھوڑا گیا،اعزہ و احباب بھی انھیں کے تقسیم ہوئے اور جان و مال کا نقصان بھی انھیں کا ہوا۔ورنہ آزادی کے بعد ہمارے ساتھ کیا نہ ہوا؟ہماری عزت و آبرو کو تاراج کیا گیا،ہزاروں فسادات ہوئے ،لاکھوں قتل ہوئے ،ہمارے شعائر مٹائے گئے،دن کے اجالے میں خدا کا گھر گرایا گیا، ہماری دینی تنظیموں پر پابندیاں لگیں،بے گناہ پابند سلاسل کیے گئے،اور اب داعیان اسلام کی پے درپے گرفتایاں ہیں۔ارباب اقتدار سے لے کر ارباب عدالت تک نے اپنے ارمان پورے کیے۔مگر ہم یہی کہتے رہے کہ” الحمد للہ ابھی بہت کچھ باقی ہے“ ۔
ہاں ابھی بہت کچھ باقی ہے،ابھی ہماری مسجدوں سے بے روح اذانوں کی صدائیں باقی ہیں،ہمارے مدارس میں خدا رسول کے نام پر اختلافی مسائل کا نصاب باقی ہے،ابھی ہمارے پرسنل لاءمیں ایجاب و قبول کی شق باقی ہے۔ابھی کرتا ،پائجامہ ،شیروانی اور بریانی باقی ہے۔ ایک نجیب گم ہوگیا ہے تو کیا ہوا ابھی لاکھوں نجیب موجود ہیں،ایک آصف مارا گیا تو کیا فرق پڑتا ہے ابھی کروڑوں آصف باقی ہیں۔ابھی تو ہمیں ووٹ دینے کا اختیار باقی ہے ۔اس لےے ابھی کسی ایسی اجتماعی کوشش کی ضرورت نہیں جس کے ذریعے ہم اپناکھویا ہوامقام حاصل کریں،اپنے وقار کی جنگ لڑیں،اپنے بے گناہوں کو پابند سلاسل ہونے سے بچائیں،اپنے بزرگوں کی داڑ ھیاں نچوانے اور کھنچوانے سے بچائیں۔
گھر کا بوڑھا ہمیشہ حکمت،مصلحت اور صبر کی تلقین ہی کرتا ہے اس لےے کہ اس کے اعصاب کسی حق کے چھیننے کے قابل نہیں رہتے۔یہی ہماری ضعیف العمر قیادت کا حال ہے۔اگر پہلے ہی دن ہم نے کسی ایک چیز کے چھین لیے جانے پر احتجاج کیا ہوتا اور اس چیز کی واپسی تک احتجاج جاری رکھا گیا ہوتا تو دوسری چیز کے چھین لیے جانے کا خطرہ نہ رہتا۔مگر ہم تو فرقوں،مسلکوں،برادریوں کے جھگڑوں میں مصروف رہے،ہمارے وہ ادارے جو ہماری دینی اورملی تشخص کی حفاظت کے لےے قائم ہوئے تھے ،جنھوں نے اربوں روپے چندے میں حاصل کیے ،جن کے ایک ایک اجلاس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ،جن کے عالی شان دفاتر پر بے شمار دولت خرچ ہوئی،وہ نششتن، گفتن ، خوردن اور برخاستن (اجلاس ہوا،تقریریں ہوئیں، کھایا پیا اور چلے گئے)تک ہی رہ گئے ۔اس کے باوجود بھی ان بے روح جسموں کے گزرنے پرہم ”ناقابل تلافی نقصان “ کا ماتم کرتے ہیں ۔کوئی” امیر الھند“ بن کر ناز کررہا ہے،کوئی مٹھی بھر جماعت کی ”امارت “کے منصب پر فائز ہوکر امیر المومنین کے خواب دیکھ رہا ہے،کوئی اپنے ساتھ” شاہی“کا لاحقہ لگا کر خود کو بادشاہ سمجھ بیٹھا ہے۔آشیاں جل رہا ہے،گلشن لٹ رہا ہے،پروانے خاک ہوئے جاتے ہیں،کلیاں مسلی جارہی ہیں ،پھول مرجھا رہے ہیں اور ہم حکمت کے تقاضے کے تحت اپنی آرام گاہوں میں اپنے معتقدین کے سامنے اپنے اسلاف کے قصیدے سنا رہے ہیں۔
آخر ہم کب بیدار ہوں گے؟کیا صور اسرافیل کا انتظار ہے؟ گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں ملک میں کتنے ہی ایسے حادثات ہوئے جنھوں نے ہمیں ہزاروں سال پیچھے دھکیل دیا ۔مگر ہم نہیں جاگے۔ ہم جس کرونا کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کررہے ہیں اسی کرونا میں سی اے اے اور این آر سی کا قانون آیا،اسی میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا،اسی میں کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے عنوان سے قانون سازی ہوئی،اسی میں کشمیر کو تقسیم کردیا گیا،اسی میں تبلیغی جماعت کو بدنام کرکے مسلمانوں کو مارا گیا،اسی درمیان دہلی جلائی گئی۔پہلے عمر گوتم اور اب کلیم صدیقی جیل چلے گئے ۔مگر ہم نہیں جاگے۔ہمارے جبہ و دستار پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ہم نے کیا کیا ؟راشن تقسیم کیا،ریلیف کیمپ لگائے،وکیل فراہم کرائے ، پریس ریلیز اور قرار داد جاری کی۔آپ سوال کرسکتے ہیں کہ خود تم نے کیا کیا؟کیوں کہ یہ سوال ہر اس شخص سے کیا جاتا ہے جو اپنے اجتماعی اداروں سے سوال کرتا ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک تنہا فرد نہ کچھ کرسکتا ہے،نہ وہ جواب دہ ہے۔کرنے کی پوزیشن میں وہ اجتماعی ادارے ہیں جنھوں نے قوم کی بازیابی کا ٹھیکہ لیا ہے ،جس کے نام پر وہ امت کی گاڑھی کمائی وصول رہے ہیں۔جن کے پاس ہزاروں اور لاکھوں بھکت ہیں ۔ کسی نے مدارس کی باز آباد کاری کا،کسی نے پرسنل لاءبچانے کا،کسی نے اقامت دین کا،کسی نے دعوت کا،کسی نے کلچر کی حفاظت کا۔پچھلے ستر سال سے یہ ٹھیکے ان کے پاس ہیں۔ذرا یہ ٹھیکے دار بتائیں تو سہی کہ قوم نے ان کے ساتھ کیا کمی کی ہے۔ان کے احترام میں قوم نے اپنی پلکیں بچھائیں،ان کے دستر خوان پر قوم نے مرغابیاں سجادیں،ان کے جلسے جلوسوں میں قوم نے ان کی امیدوں سے زیادہ بھیڑ اکٹھا کی،قوم کے مزدوروں ،رکشہ چلانے والوں اور غریبوں تک نے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا ؟کوئی بھی اجتماعی ادارہ قوم کی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔مگر ان ٹھیکیداروں نے قوم کو کیا واپس کیا؟
میں آپ سے کسی غیر آئینی اقدام کی بات نہیں کررہا ہوں کہ آپ لاٹھی اور ڈنڈے لے کر نکلیں۔بھارت کا آئین ہی ہمارا ہر طرح محافظ ہوسکتا تھا اگر ہم اس آئین کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے،اس کی حفاظت کرتے۔میں آپ کے زخموں پر نمک اس لیے نہیں لگارہا ہوں کہ آپ کے درد میں اضافہ کروں،بلکہ میں آپ کو درد کا احساس پیدا کرنے کے لیے ایسا کررہا ہوں۔کیوں کی آپ کے اندر سے احساس زیاں بھی جاتا رہا،میں صرف آپ کو آپ کے مقصد اور فرائض یاد دلا رہا ہوں جس کا آپ نے قوم سے پورا معاوضہ وصول کیا ہے۔کیا آپ غیر آئینی قانون سازی کو عدلیہ میں چیلینج نہیں کرسکتے؟کیا آپ تبدیلی مذہب قانون پر دیگر مذاہب کے ساتھ مل کر کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے؟ کیا آپ اپنے نوجوانوں کو سول ڈیفینس کی ٹریننگ نہیں دے سکتے؟کیا آپ وطن عزیز کا امن برباد کرنے والوں کو پابند سلاسل نہیں کروا سکتے؟کیا آپ اپنے حجروں اور خانقاہوں سے نکل کر سڑک پر احتجاج و مظاہرے نہیں کرسکتے؟کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کسان مہنیوں سے سڑک پر ہیں؟کیا ہماری مقدس قیادت کو قوم پر اعتماد نہیں رہا ۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ باہر نکلیے تو سہی قوم آپ کے پسینے کے مقابلے خون بہائے گی۔اگر آپ اب بھی نہیں نکلے تو یاد رکھیے کہ یہ ملک آپ پر اس قدر تنگ ہوجائے گاکہ آپ اپنے حجروں میں بھی اپنی مرضی سے سانسیں نہیں لے پائیں گے ۔اس سے پہلے کہ بھارت کا آئین منواسمرتی کے آئین سے بدل جائے خدا کے لےے اپنے اپنے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ،اپنے اپنے مسلک اور فرقوں کو بالائے طاق رکھ کر آئین کی بالا دستی کے لیے،بھارت کی ہزار سالہ گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لیے ،مظلوموں کی داد رسی کے لیے خود ہی باہر نکلیے ۔حضور یہ کسی کا ولیمہ اور عقیقہ نہیں ہے کہ لوگ آپ کے لیے دسترخوان لگائیں گے اور پہلے آپ ،پہلے آپ کی رٹ لگائیں گے ۔ بلکہ:
یہ بزم مے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خد اٹھالے ہاتھ میں ، مینا اسی کا ہے