درنگ: (ملت ٹائمز) آسام کے درنگ ضلع میں پولیس نے بغیر کسی وجہ کے حملے کیے اور بے گھر افراد کے خلاف غیر ضروری طور پر اپنی طاقت کا بے جا استعمال کیا، جس سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ اے پی سی آر (اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِوِل رائٹس) کی ایک تحقیقی ٹیم نے حال ہی میں آسام کے ضلع درنگ کے دھول پور علاقے کا دورہ کیا جہاں گزشتہ ہفتے جبری بے دخلی اور پولیس کی بربریت کے بدقسمت واقعات دیکھے گئے۔ سماجی کارکنوں، صحافیوں اور محققین پر مشتمل ٹیم نے زمین پر موجود حقائق کو یکجا کیا۔
ٹیم کی رپورٹ کے مطابق پولیس اور انتظامیہ نے اپنی طرف ایک “بڑے ہجوم” کو “لاٹھیوں اور پتھروں” سے حملہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بے دخلی کے مقام پر مذاکرات کے بعد رہائشیوں کو بحالی اور دیگر متبادل اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی۔ بعدازاں انہوں نے علاقہ چھوڑنے سے پہلے اپنا سامان جمع کرنے کے لیے منتشر ہونا شروع کر دیا تھا۔ اچانک سو سے زائد افراد نے پولیس پر لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ شروع کردیا۔ ان کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے سب سے پہلے آنسو گیس کے گولے اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا، جب وہ نہیں رُکے تو پولیس نے اپنے دفاع میں اصل گولیوں سے فائرنگ شروع کر دی۔
تاہم رہائشیوں کی اکثریت نے حکومت کے اس دعوے کو غلط ٹھہرایا کہ انہیں مناسب وارننگ دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے دخلی کے نوٹس سرکاری مہم شروع ہونے سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں پیش کیے گئے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ لوگ وہاں سے جانے پر راضی ہوئے، اور جو اپنے گھر خالی کر رہے تھے باوجود اسکے پولیس نے ان لوگوں پر حملہ کیا۔ ہلاک ہونے والے معین الحق اور شیخ فرید کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ زخمی ہونے والے افراد نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے بلا اشتعال ان پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔
تحقیقی ٹیم نے پایا کہ ضلعی انتظامیہ یا ریاستی حکومت کے کسی بھی نمائندے نے اب تک متاثرہ خاندان سے ملاقات نہیں کی ہے، نہ ہی ان کو تسلی دی گئی اور نہ ہی ان کے غم میں شریک ہوا گیا اور تو اور کسی مناسب معاوضے کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے۔
اے پی سی آر نے کہا کہ بے دخلی کی مہم کو ہیمنتا بسوا شرما کی حکومت کے تحت آسام میں کی مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آسام میں 2021 کے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما نے ریاست کے بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو الگ کرنے کا ایک دانستہ عمل شروع کیا۔
اے پی سی آر کا مطالبہ ہے کہ شیخ فرید اور معین الحق کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو بے دخلی کی مہم میں زخمی ہوئے تھے حکومت کی جانب سے مناسب معاوضہ دیا جائے۔ ایس پی درنگ سوشانت بسوا سرما سمیت اس آپریشن میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسی خاندان یا کسی بھی شخص کو مزید بے دخل کرنے سے پہلے حکومت کو ایک جامع بحالی منصوبے کا اعلان کرنا ہوگا۔ حکومت اُن مقامی لوگوں کے خلاف مقدمات بھی رد کرے جو بے دخلی کی مہم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
یہ رپورٹ پیر کے روز پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس میں جاری کی گئی ، ہاں فیکٹ فائنڈنگ ٹائم کے ممبران نے میڈیا سے بات کی۔
ایڈووکیٹ سنجے ہیگڈے ، سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل ، “پرامن واقعات کو حکومت پر تشدد کرنے کے لیے غیر متناسب طاقت استعمال کرنے پر راضی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بجائے حکومت کی ایجنسیاں اور انتظامیہ عام انسانوں پر ظلم اور طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔
اے پی سی آر کے سیکریٹری ندیم خان نے لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخلی کے عمل میں حکومت اور انتظامیہ کی کئی خرابیوں کی نشاندہی کی جو کہ انخلاء سے پہلے کی جانی چاہئیں ، جس سے ایک خوفناک صورتحال پیدا ہوئی جو کہ افسوسناک واقعہ کا باعث بنی۔ انہوں نے کہا ، “ہم بے دخل کیے گئے خاندانوں اور اس کے کنارے پر موجود دیگر افراد کی بحالی کے لیے عدالت سے رجوع کریں گے۔”
سلمان احمد ، صدر ، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے کہا ، “حکومت آسام کے حالات حسبِ معمول بتانے کی کوشش میں لگی ہے ، اور انخلاء کے مقام پر لوگوں کے آنے پر پابندی لگا رہی ہےجس سے کہہ سچ سامنے نہ آسکے۔ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور حکومت فوری طور پر امدادی کاموں کی اپنی ذمہ داری سے بھی گریز کررہی ہے۔ “