ایس آئی او کی ‘نجیب کے لئے انصاف’ کانفرنس میں طلبا اور سماجی شخصیات کا اظہار خیال
نئی دہلی: (پریس ریلیز) جے این یو کے مسلم طالب علم نجیب احمد کی جبری گمشدگی کے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں، اس موقع پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے اپنے مرکزی دفتر میں ‘نجیب کے لئے انصاف’ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔
اس نشست میں کئی طلبا اور سماجی شخصیات نے اظہار خیال کیا. انہوں نے نجیب کی تلاش میں ناکامی اور اس پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر پولیس اہل کاران کی سخت مذمت کی۔
اس کانفرنس میں یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ سے ندیم خان نے کہا کہ ملک بھر میں اتنے احتجاج کے باوجود انصاف نہیں ملا. انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور کے معاملے میں اتنےاحتجاج ہوے ہوں جتنے کہ نجیب کے کیس میں ہوے، لیکن انصاف نہیں مل سکا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو انصاف نہیں مل سکتا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جب تک یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک ہوگا تب تک “نجیب کی تحریک” جاری رہے گی۔
بیرسا امبیڈکر پھلے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اور جے این یو کے طالب علم سنیہاشش داس نے کہا کہ نجیب ایک سادہ اور مخلص مسلمان طالب علم ہے۔ لیکن ایک مسلمان ہونا آپ کو ہندوستان میں غائب کرنے کے لیے کافی ہے. ہندوستان ہمیشہ سے ہندو راشٹر رہا ہے اور منظم طریقے سے مسلمانوں کو کچلتا رہا ہے. اس ملک میں پہلے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند تشدد کیا جاتا ہے اور پھر یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ یہ لوگ خود اس تشدد کے ذمہ دار ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ اسکالر اور جے این یو کی سابق طالبہ زینیا نے کہا کہ ہم میں سے بہت سے لوگ مسلمان طلبہ کو پڑھانے کے لیے ایک منظم کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں آگے آنا ہے اور ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرنی ہے۔
آخر میں جے این یو کے ریسرچ اسکالر سعادت حسین نے نجیب کی والدہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا. انہوں نے مزید کہا کہ نجیب کی جدوجہد ہماری مظلومیت کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی جدوجہد ہے کہ ایسا سانحہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔ ہر یونیورسٹی میں ریگنگ کو روکنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ اس منہج پر کیمپس میں مسلم طلباء کی حفاظت کے لیے ایک طریقہ کار بھی ہونا چاہیے۔