علامہ شبلی نعمانی عہد جدید کے نامور مفکر ، انشاء پرداز اور معلم اول تھے علامہ شبلی نعمانی پر آئی او ایس کے زیر اہتمام دوروزہ قومی سمینار کا انعقاد

نئی دہلی: ( پریس ریلیز) معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹ]وٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام گذشتہ دنوں عہد جدید کے معلم اول علامہ شبلی نعمانی ۔ حساس مفکر ، افکارو اصلاحات کے عنوان پر دوروزہ قومی سمینار کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک نماں علمی شخصیات نے اپنا مقالہ پیش کیا ،مہمان خصوصی کی حیثیت سے زوم کے ذریعہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوة العلماءنے شرکت کی ، اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ بلاشبہ علامہ شبلی نعمانی عہد جدید کے نامور مفکر ، انشاءپرداز اور معلم اول تھے ، ضرورت ہے کہ آج کے دور میں ان کے نظریات ، ان کے افکار وخیالات سے جدید نسل کو آگاہ کیا جائے ، ان کی خدمات سامنے لائی جائے ، آ ئی او ایس نے علامہ شبلی تعمانی پر سمینار کا انعقاد کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیاہے ، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز شروع دن سے امت مسلمہ کے درمیان فکر سازی کے میدان میں کام کررہاہے اور یہ سیمنار بھی اسی کڑی کا حصہ ہے جس کیلئے آئی او ایس کے ذمہ داران مبارکباد کے حقدار ہیں ۔پروفیسر سعودعالم قاسمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم نے آخری سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ علامہ شبلی نعمانی مغربی تہذیب اور ا ±س کے ادب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے، سرسیّد کے رفقاء میں وہ تنہا تھے جو آخری عمر تک اسلامی تہذیب و ادب کے دفاع میں اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے، انہوں نے یورپی اسکالروں کی اس بہتان طرازی اور اخترا پردازی کا پردہ چاک کیا، جو مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں پر شب خون مارنے کے لئے منصوبہ بند طریقے سے آزمائی جارہی تھی اور ا ±س کی وجہ سے نوجوان طبقہ اپنے مشاہیر کے عقائد اور تہذیب پر شرمندگی محسوس کرکے ا ±ن کے مخالفوں کی ہمنوائی کرنے لگا تھا۔
پروفیسر سید جمال نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بتایاکہ علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876 میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892 میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ءمیں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913 میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ءمیں انتقال ہوا۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری جنرل اسلامک فقہ اکیڈمی نے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت ، علمی خدمات اور فکری رحجانات پر تفصیلی گفتگو ۔ مولانا تقی الدین ندوی معتمد تعلیم دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو نے کلیدی خطاب میں علامہ شبلی نعمانی کی ہمت شخصیت کو اختصار سے پیش کیا ۔ خاص طور پر انہوں نے کہاکہ شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں بکھرے ہوئے ہیں ۔افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر زیڈ ایم خان نے کی ، اس کے علاوہ مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی سمیت متعدد اسکالروں نے اپنا مقالہ پیش کیا ۔ پروفیسر حسینہ حاشیہ نے شکریہ ادا کیا جبکہ مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی نے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com