مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی فاقہ کشی اشاریہ) کے مطابق پوری دنیا کے سروے شدہ ایک سو سولہ (116) ممالک میں ہندوستان ایک سو ایک (101) نمبر پر ہے ، جب کہ نیپا ل اور بنگلہ دیش کا نمبر چھہتر (76) اور میانمار کا اکہتر (71) ہے ، ہندوستان کا دیرینہ حریف اور پڑوسی ملک پاکستان اس درجہ بندی میں بانوے (92) نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں فاقہ کش لوگ پڑوسی ممالک نیپال ، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی زیادہ ہیں ۔ ملک کا جی ایچ آئی اسکور بھی گراوٹ کا شکار ہے ، سال 2000 میں یہ 38.8 فیصد تھا 2012 سے 2021 تک میں28.8-27.5 فیصد رہ گیا ہے ، جن بنیادوں پر عالمی فاقہ کشی کے اعداد و شمار تیار کیے جاتے ہیں ، ان میں غذائیت کی کمی ، بچوں کی کمزور ی، بچوں کے قد کا چھوٹا ہو نااور بچوں کی شرح اموات سامنے ہوتی ہیں۔یہ گلوبل ہنگر انڈیکس آئر لینڈ کی امدادی ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ اور جرمنی کی تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے ،رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر پونے بارہ کروڑ لوگوں کو فاقہ کشی کا سامنا ہے ، 2019 کے مقابلہ میں عالمی سطح پر اٹھارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے ، غذائی صورت حال یہ ہے کہ 2020 میں پوری دنیا میں ہر تین میں سے ایک شخص (237 کروڑ لوگوں) کو مناسب خوراک دستیاب نہیں اکیس فیصد آبادی خراب غذا کے استعمال پر مجبور ہے ۔
صرف ہندوستان کی سطح پر تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک طرف لوگ کثیر تعداد میں فاقہ کشی کے شکار ہیں تو دوسری طرف غذائی اجناس سرکاری گوداموں میں سڑ رہے ہیں ، چوہے اور دوسرے جانور گودا موں میں رکھے اجناس کا ایک بڑا حصہ صاف کیے دے رہے ہیں۔ کسانوں کو ان کی پیداوار کی اچھی قیمت نہیں ملتی ہے ، اس کی وجہ سے بہت سارے غذائی اجناس کو وہ خود بھی برباد کر دیتے ہیں،چند سال قبل جب ٹماٹر کا بھاؤ ایک روپئے کیلو تک جا پہونچا تھا اور ٹماٹر کی کاشت کرنے والے کسانوں کے لیے مارکیٹ لے جانے کا خرچہ بھی نہیں نکل پا رہا تھا تو انہوں نے ٹماٹر کو کھیت میں ہی دفن کرنے کا کام کیا، لاک ڈاؤن میں بھی جب مقامی بازار کے علاوہ پیداوار کو دوسری جگہ پہونچانا ممکن نہیں رہا تو بہت سارے پھل، ساگ سبزیاں سڑ گئیں اور انہیں زمین میں دفن کر دینا پڑا۔ یہ حال تو عام غذائی اجناس کا ہوا، اور ہو رہا ہے ، پختہ اور پکی ہوئی غذاؤں کا ضیاع اس سے کہیں زیادہ ہے ، تقریبات میں کھانے پینے کی کتنی اشیاء ہر روز ضائع ہو رہی ہیں ، بوفے سسٹم یعنی چلتے پھرتے کھانے اور کاؤنٹر کاؤنٹر جا کر لینے کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ سامان لے لیا جا تا ہے تاکہ مبادا دوسرے دور میں لینے جائیں تو کیا پتہ وہ چیز ملے یا نہ ملے اس اندیشے سے پلیٹیں لبالب بھر لی جاتی ہیں ، اور باقی ماندہ سامان کچڑے کے ڈبے میں چلا جا تا ہے ۔ یہ کھانا اگر فاقہ کش لوگوں تک پہونچے تو لاکھوں انسانوں کا پیٹ بھر سکتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے تمام ممالک مل کر آٹھ ارب لوگوں کے لیے غذائی اجناس تیار کرتے ہیں اس کے با وجود اسی کروڑ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں اور دو ارب سے زیادہ انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے ، تو ہمیں اس کے اسباب و علل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔
اس سلسلے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر جو خوراک تیار ہو تی ہے اس کا ایک تہائی بلکہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن تو فرج میں رکھے رکھے گل سڑ جا تا ہے ۔ ڈبہ بند خوراک کا ٹائم فیل ہو جا تا ہے یعنی وہ ایک طے شدہ مدت کے بعد اکسپائر ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ فاقہ کشوں کی بھوک دور کرنے کے بجائے کوڑے دان میں پہونچ جاتے ہیں۔ 2019 میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پیدا غذائی اجناس کا چودہ فیصد حصہ کھیت کھلیان اور اسے مارکیٹ تک پہونچانے کے دوران ضائع ہو گیا جبکہ پکے ہوئے کھانے کا سترہ فیصد حصہ قابل استعمال نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس ضیاع سے سال میں ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو تا ہے ۔ ایف اے او (فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن) کی ڈپٹی ڈائرکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ یہ صرف خوراک کا ضیاع نہیں ہے ، بلکہ اس خوراک کے تیار کرنے میں جو کچھ صرف کیا گیا ، مثلاً پانی ، مزدوری، توانائی، سرمایہ ، ایندھن؛ سب کا ضیاع ہے ۔ پھر یہ ضائع شدہ سڑے گلے اجناس ماحولیات پر بھی اثرا نداز ہو تے ہیں ۔ اس سے جو بد بو پھیلتی ہے اس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ، ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ان سڑے گلے اجناس کے ادھر اُدھر پھینکے ہونے کی وجہ سے ہی بلیک فنگس جیسی بیماریاں پیدا ہو تی ہیں ۔ اس کے علاوہ خوراک تیار کرنے کے عمل میں گرین ہاؤس گیسوں کا جو اخراج ہو تا ہے وہ دنیا میں خارج ہونے والی کاربن ڈاء آکسائڈ کے دس فیصد کے برابر ہے ،جو انسانی صحت کے لیے مضر ہے ۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ غذائی اجناس خواہ خام ہوں یا پختہ، ان کو ضائع ہونے سے بچانے کی تدابیر کی جائیں ۔ اقوام متحدہ نے 2030 تک فاقہ کشی کے دور کرنے کا جو طویل میعاد منصوبہ بنایا ہے اس کے ہدف کو پانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے ۔ ظاہر ہے اقوام متحدہ گھر گھر پہونچ کر لوگوں کو بیدار نہیں کر سکتی یہ تبھی ممکن ہے جب ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ہر سطح پر غذائی اجناس کے تحفظ کا نظم کیا جائے ۔ امراء اپنے آس پڑوس کے غرباء اور مساکین کا خیال رکھیں۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ چیزیں سڑ جاتی ہیں اور پاس پڑوس میں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور فاقہ کشوں کو کھانا کھلانے کا کام کیا جائے ، ان سے نہ تو بدلے کی امید رکھی جائے اور نہ شکریہ کی، اعلان کر دیا جائے کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے کھلا رہے ہیں جزاء اور شکریہ کی امید نہیں رکھتے ۔ سائل اور محروم لوگوں کا خیال رکھا جائے اور ہر آدمی یہ سوچنے لگے کہ ہمارا پڑوسی بھوکا نہ سوئے تو فاقہ کشی سے نجات حاصل ہوسکتی ہے ۔