عمر عبداللہ نے آگرہ میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار تین کشمیری طلبا کے ساتھ آگرہ عدالت میں وکلا کے سلوک کو نا قابل قبول اور پولیس کے رول کو مشکوک قرار دیا ہے
سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آگرہ میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے الزام میں گرفتار تین کشمیری طلبا کے ساتھ آگرہ عدالت میں وکلا کے سلوک کو نا قابل قبول اور پولیس کے رول کو مشکوک قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات قریب آنے کے پیش نظر کشمیری طلبا کے ساتھ دوستی کے بجائے انہیں سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کالج حکام نے ان طلبا کو کلین چٹ دے دی ہے اور تصدیق کی ہے انہوں نے کوئی نعرہ بازی نہیں کی۔
موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار جمعے کے روز اپنے ٹویٹس میں کیا۔
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ’وکلا کا (آگرہ میں گرفتار کشمیری طلبا) کے ساتھ سلوک نا قابل قبول ہے اور پولیس کا رول بھی مشکوک ہے۔ انتخابات قریب ہونے کے پیش نظر کشمیری طلبا کے ساتھ دوستی کرنے کے بجائے صاحبان اقتدار کی طرف سے انہیں سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے‘۔
ان کا اپنے دوسرے ٹویٹ میں کہنا تھا: ’کالج حکام نے ان کو کلین چٹ دے دی اور تصدیق کہ انہوں نے کوئی نعرہ بازی نہیں کی لیکن کالج حکام کی یقین دہانیوں کو خاطر میں لانے کی بجائے اتر پردیش کی پولیس ان لاچار بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے‘۔
قابل ذکر ہے کہ آگرہ کے ایک انجیئرنگ کالج میں پاکستان کی ہندوستان کے خلاف ٹی ٹونٹی میچ میں جیت کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے الزام میں تین کشمیری طلبا کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار شدہ طلبا کو جب گذشتہ روز آگرہ عدالت میں لے جایا گیا تو وہاں مبینہ طور بی جے پی اور اس کے ہم فکر کارکنوں اور وکلا نے ان پر حملہ کر دیا۔