شرد پوار کی اسٹریٹجک سمجھداری سے گھبرائی بی جے پی کھسکتی زمین کا اندازہ تک نہیں لگا پا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہرش وردھن پاٹل اور پنکجا منڈے جیسے لیڈر اب کھل کر اپنی پارٹی کے بارے میں بیان دے رہے ہیں۔
اپنے مخالفین کے خلاف سی بی آئی کا استعمال کر بی جے پی خود ہی مگرمچھ کے جبڑوں میں پھنس گئی معلوم پڑتی ہے۔ مہاراشٹر کے سینئر وزیر نواب ملک جس طرح نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کے طریقہ کار اور اس کے اہم افسر سمیر وانکھیڈے کے بارے میں روزانہ کچھ نہ کچھ انکشاف کر رہے ہیں، وہ تو ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی اور مہاراشٹر میں برسراقتدار ’مہاوکاس اگھاڑی‘ (ایم وی اے) کی پارٹیوں، خصوصاً شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے درمیان چل رہی آر پار کی لڑائی میں وانکھیڈے معاملہ بی جے پی کے لیے صرف چھوٹا سا خسارہ ہے۔ اشارے تو یہ بھی مل رہے ہیں کہ شرد پوار اب بی جے پی سے بالکل سیدھے دو-دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مہاراشٹر کے سابق وزیر ہرش وردھن پاٹل کا پوار فیملی کے ساتھ برسوں سے پیار اور نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ لیکن اب انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ دوہرا رویہ نہیں چل سکتا، کیونکہ پوار بہت سمجھ بوجھ والے اور ہر مشکل حالت سے باہر نکل جانے والے لیڈر رہے ہیں۔ 1999 میں پاٹل نے پوار کے بارامتی لوک سبھا حلقہ کے تحت اانداپور اسمبلی حلقہ میں پوار کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ وہ اس سال پہلی شیوسینا-بی جے پی حکومت کے وزیر بنے۔ اگلے دو الیکشن وہ آزاد امیدوار کے طور پر لڑے اور جیتے، اور انھوں نے کانگریس-این سی پی حکومت کی حمایت کی۔ 2009 میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پر لڑے اور جیتے۔ ان سب وقت میں وہ وزیر رہے۔ ایک وقت تو انھیں وزیر اعلیٰ عہدہ کا دعویدار تک مانا جانے لگا تھا۔
لیکن 2014 میں این سی پی اور کانگریس نے الگ الگ الیکشن لڑا اور پاٹل کو این سی پی امیدوار کے ہاتھوں شکست ملی۔ 2019 لوک سبھا انتخاب میں پاٹل نے این سی پی سربراہ شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے کی اس امید میں حمایت کی کہ انھیں اسمبلی انتخاب میں این سی پی سے مشکل نہیں آئے گی۔ لیکن اسمبلی انتخاب سے قبل ہی این سی پی قیادت نے صاف کر دیا کہ انداپور سیٹ کو لے کر کانگریس کے ساتھ ان کی پارٹی کا کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ اس پر پاٹل نے بی جے پی کا دامن تھام لیا۔ پھر بھی وہ الیکشن ہار گئے۔
پاٹل نے اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں ایک عوامی پروگرام میں کہا کہ ’’میں بی جے پی میں اس وجہ سے شامل ہوا تاکہ میں رات میں آرام سے سو سکوں اور مجھے کسی طرح کی جانچ یا چھاپوں کا ڈر نہیں ہو۔‘‘ بی جے پی قیادت اپنی پارٹی کے کسی شخص کی طرف سے اس قسم کے بیان کو پسند کرے گی، اس کی امید کم ہی ہے۔ ایسے میں مانا یہی جا رہا ہے کہ پاٹل اب پوار فیملی کی طرف جانے کی سوچ رہے ہیں۔
دوسری طرف پنکجا منڈے کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ وہ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی ہیں اور دیویندر فڑنویس حکومت میں وزیر رہ چکی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اپنے پارٹی لیڈران سے کہا کہ ’’آپ مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو گرانے کی کوشش میں اپنا کافی وقت برباد کر رہے ہیں اور زمینی حالات پر کافی کم دھیان دے رہے ہیں۔‘‘ پنکجا کے چچیرے بھائی دھننجے منڈے نے این سی پی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر انھیں ہرا دیا تھا اور وہ بھی اپنے انتخابی حلقہ میں بغیر سمجھوتہ نہیں جیت سکتیں۔ یہ تو صاف ہے کہ اگر پاٹل اور پنکجا کو الیکشن میں جیت نہیں مل سکتی، تو وہ بی جے پی کے لیے کسی کام کے نہیں ہیں۔ لیکن پارٹی یہ تو قطعی نہیں چاہے گی کہ یہ لیڈران اس کے لیے مشکلات کھڑی کریں۔
ویسے شیوسینا لیڈر سنجے راؤت نے پاٹل کے بیان پر بہت درست چٹکی لی کہ ’’ان کی کہی بات سے بی جے پی کے بارے میں سب کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ سبھی جرائم پیشے بی جے پی میں آرام سے رہ سکتے ہیں، اور جنھیں وہ زمین پر نہیں ہرا سکتے، ان سیاسی مخالفین کے خلاف چھاپے، جانچ وغیرہ سہولت والے اسلحے ہیں۔‘‘ ویسے جب اس قسم کے تبصرے ہونے لگے تو پاٹل نے یہ کہہ کر بات سنبھالنے کی کوشش کی کہ وہ بی جے پی میں اس وجہ سے شامل ہوئے کیونکہ انھیں ٹکٹ دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ ویسے، اس سے ان کی یا بی جے پی کی حالت کتنی بہتر ہوئی، سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
دراصل شاید خود بی جے پی کے لوگوں کو اس بات سے مطمئن کرنا بہت مشکل ہی ہوگا کہ شاہ رخ اور آرین کو پریشان کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کے نام خان ہیں۔
(بشکریہ قومی آواز)