شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
آپ قدم قدم پر اپنے ساتھیوں کی دلداری کا خیال رکھتے تھے ، غزوۂ حنین کے بعد جب مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلہ میں انصار میں سے بعض نوجوانوں کو شکوہ پیدا ہوا تو آپ نے ان کو الگ جمع کیا اور ایسا اثر انگیز خطبہ دیا کہ ان کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں ، آپ نے اس موقع پر جہاں انصار مدینہ پر اسلام کے احسانات کا ذکر فرمایا ، وہیں انصار کے احسانات کا بھی کھلے دل سے اعتراف فرمایا اور اخیر میں ارشاد فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم نبی کو اپنے کجاوہ میں لے کر جاؤ ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی میں پیدا ہوا ہوتا ، اگر لوگ ایک وادی میں چلیں تو میں اس وادی میں چلوں گا ، جس میں انصار چلیں ، میرے لئے انصار کی حیثیت اس لباس کی سی ہے ، جو اوپر سے پہنا جاتا ہے : ’’ الانصار شعار والناس دثار‘‘ ۔ ( بخاری ، عن عبد اللہ ابن زید ، باب غزوۃ الطائف ، حدیث نمبر : ۴۳۳۰)
آپ اا پنے صحابہ کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھتے ، ایک صاحب کی کھجوروں کی فصل خراب ہوگئی اور ان پر بہت سارا دَین ہوگیا ، آپ انے اپنے رفقاء سے فرمایا ، ان کی مدد کرو ، لوگوں نے مدد کی ؛ لیکن دَین ادا نہیں ہوپایا ، آپ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا : جو موجود ہو ، وہ لے لو ، اور تم کو صرف اسی کا حق حاصل ہے ۔ ( مسلم ، باب استحباب وضع الدین ، حدیث نمبر : ۱۵۵۶)
اگر آپ کے رفقاء میں سے کسی کو تکلیف دہ بات پیش آئی تو ان کی تسلی اور دلداری کا پورا اہتمام فرماتے ، عبد اللہ ابن جحشؓ نے جب ہجرت کی تو مکہ مکرمہ میں ان کے مکان پر ابوسفیان نے قبضہ کرلیا اور بیچ ڈالا ، جب انھوں نے آپ اسے شکایت کی تو آپ انے فرمایا : تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ اللہ تم کو اس کے بدلے جنت میں اس سے بہتر گھر عطا فرمادے ، انھوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ انے فرمایا : تم کو یہ چیز ، یعنی : اس کے بدلہ میں جنت ملے گی ، ( سیرت ابن ہشام : ۳؍۱۲۸، الروض الانف : ۴؍۱۶۶) ۔۔۔ ایک صاحب اپنے چھوٹے بچے کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے ، بچہ آپ کی پشت مبارک کی طرف آجاتا تو آپ ااسے سامنے بٹھالیا کرتے، بچے کا انتقال ہوگیا ، اس صدمہ سے ان کے والد حاضر نہ ہوسکے ، آپ ا کو معلوم نہیں تھا ، ان کے بارے میں دریافت کیا ، بتایا گیا کہ ان کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا ہے ، آپ ا نے ان سے ملاقات کی ، ان کے بچہ کے بارے میں دریافت فرمایا اور تعزیت کی ، پھر آپ نے فرمایا : تمہیں یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ وہ تمہارے ساتھ زندگی گذارتا ، یا یہ بات کہ تم جنت کے کسی دروازے پر آؤ ، اور تم دیکھوکہ وہ تم سے پہلے پہنچ چکا ہے اور تمہارے لئے دروازہ کھول رہا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : یہ دوسری بات مجھے زیادہ محبوب ہے ، آپ انے فرمایا : یہ چیز تم کو حاصل ہوگئی ، صحابہ نے عرض کیا : یہ صرف ان کے لئے ہے یا سبھوں کے لئے ، آپ ا نے فرمایا : سبھوں کے لئے ۔ ( نسائی ، عن قرہ بن ایاس ، باب فی التعزیہ ، حدیث نمبر : ۲۰۸۸)
اسی طرح آپ مشکل کاموں میں بھی صحابہ کے ساتھ شریک رہتے ، غزوۂ خندق کے موقع سے سرد موسم تھا ، صحابہ بھوکے پیاسے خندق کھودنے میں مشغول تھے اور تھک کر چور ہوجاتے تھے ، ایسے وقت آپ ا تشریف لاتے اور فرماتے :
اللّٰہم إن العیش عیش الآخرۃ ، فاغفر للأ نصار والمھاجرہْ ۔(بخاری ، کتاب المغازی ، باب غزوۃ الخندق ، حدیث نمبر : ۴۰۹۹)
اے اللہ ! عیش و آرام تو آخرت ہی کا عیش و آرام ہے ؛ اس لئے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دیجئے ۔
ہم لوگ جواب میں کہتے کہ ہم نے آخری دم تک کے لئے جہاد پر ( محمد ا) سے بیعت کی ہے ، ( بخاری ، عن انس ، باب التحریض علی القتال ، حدیث نمبر : ۲۸۳۴) ۔۔۔ ایک موقع پر مدینہ میں شور مچ گیا ، لوگوں کو خیال ہوا شاید دشمن حملہ آور ہوگیا ہے ، سب سے آگے آپ ابڑھے اور اس حال میں واپس آئے کہ آپ حضرت ابو طلحہؓ کے گھوڑے پر تھے ، جس پر زین بھی نہیں تھی اور گردن مبارک سے تلوار لٹکی ہوئی تھی ، آپ فرمارہے تھے : کہ کیوں گھبراتے ہو ؟ کیوں گھبراتے ہو ؟ (بخاری ، عن انس ، باب الحمائل وتعلیق السیف بالعنن ، حدیث نمبر : ۲۹۰۸)
ایک دفعہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سفر پر تھے ؛ چنانچہ ایک بکرا کو ذبح کرنے کی بات طے پائی ، ایک صحابی نے کہا : اس کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے ، دوسرے نے کہا : اس کے چمڑے نکالنے کا کام میں کروں گا ، تیسرے نے کہا : میں اسے پکاؤ ں گا ، رسول اللہ انے کہا : میں ایندھن کی لکڑیاں جمع کروں گا ، صحابہ نے عرض کیا : آپ کا کام ہم کردیں گے ، یعنی : آپ زحمت نہ فرمائیں ! ارشاد فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ میری طرف سے کفایت کردوگے ؛ لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے مقابلہ امتیاز اور بڑائی اختیار کروں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے ہیں ، جو اپنے ساتھیوں میں بڑے بنتے ہوں : ’’ فإن ﷲ سبحانہ وتعالٰی یکرہ من عبدہ أن یراہ متمیزا بین أصحابہ‘‘ ۔ ( کشف الخفاء : ۱؍۲۵۱)
آپ اپنے رفقاء کے ساتھ اس طرح رہتے تھے کہ گویا آپ ان ہی میں سے ایک ہیں ، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ا انصار کے یہاں تشریف لے جاتے تھے ، ان کے بچوں کو سلام کرتے تھے ، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اور انھیں دُعائیں دیتے تھے ، ( سنن بیہقی ، عن انس ، باب ابناء الانصار ، حدیث نمبر : ۸۲۹۱) حضرت سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ آپ مسلمانوں میں سے کمزورلوگوں کے پاس تشریف لاتے تھے ، ان سے ملاقات کرتے تھے ، ان کے بیماروں کی عیادت فرماتے تھے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے ، ( مستدرک حاکم ، باب تفسیر سورۃ ق ، حدیث نمبر : ۳۷۳۵) حضرت عبد اللہ ابن ابی اوفیٰؓ نقل کرتے ہیں کہ آپ اکو بیواؤں اور مسکینوں کے لئے چلنے اور ان کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا ۔ ( نسائی ، باب مایستحب من تقصیر الخطبۃ ، حدیث نمبر : ۱۴۱۳)
بہت سے لوگ جو دیہاتوں کے رہنے والے تھے ، عام طورپر تہذیب ناآشنا ہوتے تھے ؛ لیکن آپ ان کی باتوں کو بھی خندہ پیشانی سے سہ جاتے تھے ، ایک موقع پر ایک دیہاتی شخص نے اس زور سے چادر مبارک کھینچ دی کہ گردن مبارک پر نشان پڑگیا ، آپ نے صرف اس قدر فرمایا کہ تم اسے بھلے طریقہ پر بھی تو کہہ سکتے تھے ، (بخاری ، کتاب فرض الخمس ، حدیث نمبر : ۳۱۴۹) حضرت جبیر ابن مطعمؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ حنین سے واپس ہوئے تھے جب ڈھیر سارا مال غنیمت آیا تھا ، لوگوں نے آپ ا سے مانگتے ہوئے اس قدر دِق کردیا کہ آپ ایک درخت سے جالگے ، ایک دیہاتی نے چادر مبارک تک کھینچ لی ، آپ کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ان درختوں کے میدان کے برابر جانور ہوتے تو میں اس کو بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے ۔
( صحیح بخاری ، باب ماکان النبی صلی ﷲ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبھم الخ ، حدیث نمبر : ۳۱۴۸)
آپ ا اپنے رفقاء کے ساتھ نہ صرف مالی جہت سے حسن سلوک کرتے تھے ؛ بلکہ ان کو مشورہ میں بھی شامل رکھتے تھے ؛ حالاں کہ آپ کا ہر عمل وحی الٰہی پر مبنی ہوتا تھا ؛ اس لئے آپ کو مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن اپنے ساتھیوں کی دل داری اور مشورہ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے آپ ا مشورہ فرمایا کرتے تھے ، کثرت سے اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے : اے لوگو ! مجھے مشورہ دو : ’’ اشیروا علیَّ أیھا الناس‘‘ (مسلم ، باب نقض الکعبۃ وبناءھا، حدیث نمبر : ۴۰۲) ؛ چنانچہ غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کا فیصلہ حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے ہوا ؛ بلکہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ابعض اوقات اپنی رائے پر اپنے رفقاء کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ، جیساکہ غزوۂ اُحد میں ہوا ؛ ( سیرۃ ابن ہشام : ۲؍۶۰) حالاں کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ آپ ہی کی رائے درست تھی ؛ لیکن کبھی آپ نے ان ساتھیوں پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ، جن کے مشورہ پر عمل کیا گیا تھا اور جو بظاہر مسلمانوں کے لئے نقصان کا سبب ہوا ۔
جہاں آپ اپنے رفقاء کی مادی ضرورتوں کا اور دل داری و حسن سلوک کا لحاظ رکھتے تھے ، وہیں ان کی دینی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے ، آپ نے ایک صاحب کو تیز تیز نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، پوری توجہ سے ان کی نماز کا جائزہ لیا اور پھر ان کو اعتدال و میانہ روی کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی ، ( مسلم ، کتاب الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۳۹۷) ایک موقع پر اپنے رفقاء سے فرمایا : جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ، اسی طرح نماز پڑھا کرو : ’’صلوا کما رأیتمونی أصلی‘‘ ( بخاری ، باب رحمۃ الناس والبھائم ، حدیث نمبر : ۶۰۰۸) حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : شاید اس کے بعد پھر میرا اور تمہارا حج ایک ساتھ نہ ہوپائے ؛ اس لئے مجھ سے ضرور ہی حج کا طریقہ سیکھ لو : ’’ لتأخذوا مناسکم‘‘ (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۲۹۷) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے قرآن پڑھواکر سنا ، ( مسلم ، حدیث نمبر : ۸۰۱) حضرت ابوبکرؓ سے اپنے سامنے ایک مقدمہ کا فیصلہ کروایا ، ( کنزالعمال : ۵؍۱۲۸) حضرت معاذ بن جبلؓ کو اجتہاد کے اُصول بتلائے ، (ترمذی ، کتاب الاحکام ، حدیث نمبر : ۱۳۲۷) حضرت علیؓ کو قضاء کا کام سپرد کرتے ہوئے نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کا منہج سمجھایا ، کہ ان مسائل میں انفرادی رائے قائم کرنے کے بجائے اجتماعی غور و فکر کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ ( المعجم الاوسط : ۱۶۱۸)
دینی تربیت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ا اپنی تمام تر نرمی ، رحمدلی ، تواضع اور خوش اخلاقی کے باوجود احکام شریعت کے معاملہ میں سختی سے کام لیتے تھے ، آپ ا حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بہت چاہتے تھے ، عرب کے ایک معزز قبیلہ کی ایک خاتون نے چوری کرلی تھی اور اس پر شرعی سزا جاری کرنے کا مسئلہ تھا ، حضرت اسامہؓ نے اس کے حق میں سفارش کی ، تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا ، آپ نے نہ صرف ان کی تنبیہ کی ؛ بلکہ اس موقع سے خطبہ بھی ارشاد فرمایا : گذشتہ قومیں اسی بنیاد پر ہلاک کر دی گئیں ، کہ ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو لوگ انھیں چھوڑ دیتے اور کوئی معمولی آدمی چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کرتے ، خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے ۔ ( بخاری ، باب حدیث الغار ، حدیث نمبر : ۳۴۷۵)
آپ ااس بات کا بھی خیال رکھتے کہ اگر اپنے رفقاء کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہوجائے تو اسے دُور فرمادیں ، ایک بار تو ایسا ہوا کہ آپ قبیلہ بنو عوف میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے اور اس کوشش میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ حضرت بلالؓ نے نماز کے لئے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو آگے بڑھا دیا ، آپ ابعد میں آکر شریک ہوئے ، ( بخاری ، عن سہل ابن سعد ساعدی ، باب من دخل لیؤم من الناس الخ ، حدیث نمبر : ۶۸۴) اسی طرح آپ انے بعض صحابہ کے درمیان ، مہاجرین و انصار کے درمیان ، اور انصار کے دو قبائل اَوس وخِزْرِج کے درمیان اختلاف کو دُور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور میل ملاپ کے ماحول کو باقی رکھنے کا سبق دیا ۔
اپنے احباب کے ساتھ اس حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابی کا دل آپ کی محبت سے لبریز ہوتا ، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بعض لوگ وہ تھے ، جو دنیاوی مفاد کے لئے اسلام قبول کرتے تھے ؛ لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو مسلمان ہونا دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے عزیز تر ہوجاتا تھا ۔ ( مسلم ، باب ما سئل رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم شیئا قط ، فقال : لا، وکثرۃ عطاۂ ، حدیث نمبر : ۲۳۱۲)
غرض کہ رسول اللہ اکی ذات والا صفات اپنے دوستوں ، بے تکلف ساتھیوں ، ہم عمروں اور رفقاء کار کے ساتھ خوشگوار برتاؤ کی ایک بہترین مثال ہے ! (ملت ٹائمز)