نئی دہلی: ”اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے قطعی مختلف ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبہ کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقہ کا پابند کرتا ہے، جس کا نام نکاح ہے۔“ ان خیالات کا اظہار معروف عالم ومحقق اور اسلامی دانش ور مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اپنے خطاب میں کیا۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام گیارہویں قاضی مجاہد الاسلام یادگاری خطبہ پیش فرمارہے تھے۔
انھوں نے موجودہ دنیا کو درپیش متعدد حساس اور سلگتے ہوئے سماجی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلام کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطری داعیہ کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اسی طرح اسلام میں انسان اپنے اعضائے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادہئ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرایے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اس کے نزدیک عفت وعصمت اعلیٰ اخلاقی قدر اور بڑی قیمتی شیئ ہے، اس لیے اس سے کھلواڑ کرنے، اسے ذریعہئ معاش بنانے یا اسے مال ِ تجارت کی حیثیت دینے کا کسی کو حق نہیں۔ اس کے نزدیک اولاد شادی شدہ جوڑے کے لیے اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے، اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ نے روزی اور وسائل معاش فراہم کرنے کا ذمہ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے، اس لیے کم افادیت یا عدمِ افادیت کے بہانے مادَہ (Female) جنین کا اسقاط کروانا جائز نہیں۔ اس کے نزدیک بوڑھے والدین خاندان کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ہرطرح سے خدمت کرنا، ان کے لیے دیدہ و دل کو فرشِ راہ کرنا اور ان کی تنک مزاجی کو برداشت کرنا سعادت مند اولاد کا فریضہ ہے۔ وہ نظام ِخاندان میں مرد اور عورت کے حقوق کے درمیان مساوات کا تو قائل ہے، لیکن ان کی یکسانیت کا حامی نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے دائرہئ کار الگ الگ رکھے ہیں اور دونوں کو الگ الگ نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔“
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اسلام کے سماجی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصہ تک دنیا کے قابل ِلحاظ حصہ میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔“
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے فاضل مقرر کے خطبے کی بڑی ستائش کی اور اس خطبے کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی علمی فتوحات کی ایک اہم کڑی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اپنے قضا اور افتا کے ذریعے اسلام کو سماج کے اندر ایک جاری وساری روح کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نہایت باریک بینی کے ساتھ سماجی مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے حل کا اسلامی نقطہئ نظر پیش کرتے تھے۔ آج کے موضوع کے لیے فاضل مقرر کا انتخاب نہایت موزوں تھا۔ اس موضوع سے وابستہ متعدد گوشے ایسے ہیں، جن پر تفصیل سے بحث ومباحثے کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل درحقیقت مسائل نہیں بلکہ سماجی برائیاں ہیں۔ ان کے سماجی، نفسیاتی اور طبی نقصانات کے تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ اگر فاضل مقرر کی رہنمائی میں آئی او ایس کے زیر اہتمام یہ کام انجام پائے تو یہ ایک بڑا اہم قدم ہو گا۔“
پروگرام کی نظامت شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دی۔ انھوں نے آغاز میں قاضی مجاہد الاسلام میموریل لکچر کا تعارف پیش کیا اور مہمان مقرر کا تعارف بھی کرایا۔ جلسے کا آغاز محمد اطہر حسین ندوی کی تلاوت سے ہوا۔ بڑی تعداد میں سامعین موجود تھے، جن میں پروفیسر عبدالعلی، پروفیسر حسینہ حاشیہ، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر مجیب اختر، ڈاکٹر ذیشان سارہ، محمد عطاء الرحمن، محمد عالم، مولانا خالد حسین ندوی اور راشد انور خصوصیت کے ساتھ موجود تھے۔